1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. حامد میر/
  4. ڈیل نہیں ناکامی کا خوف!

ڈیل نہیں ناکامی کا خوف!

وزیراعظم عمران خان کی ناکامی کا خوف اُن کے کچھ پرانے اور وفادار ساتھیوں کو تیزی کے ساتھ گھیر رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک وفاقی وزیر تشویشناک لہجے میں بتا رہے تھے کہ وہ صبح نو بجے دفتر آتے ہیں اور رات دس گیارہ بجے سے پہلے فارغ نہیں ہوتے۔ سارا دن دفتر میں کام کرنے اور اپنی جیب سے منگوایا ہوا فاسٹ فوڈ کھا کھا کر وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا آپ دفتر میں اتنا وقت کیوں گزارتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب میں کہا کہ ہمارا لیڈر اور وزیراعظم بھی دفتر میں اتنا ہی وقت لگاتا ہے۔ سوال کیا کہ اگر وزیراعظم اور ان کی کابینہ روزانہ چودہ پندرہ گھنٹے کام کر رہی ہے تو حکومت کی کارکردگی میں بہتری کیوں نظر نہیں آ رہی؟ وزیر صاحب نے فٹ سے جواب میں کہا "حامد بھائی یہی تو مسئلہ ہے۔ ساری کابینہ چودہ پندرہ گھنٹے کام کرے تو کیا نہیں ہو سکتا لیکن ہم صرف پانچ یا چھ وزراء ہیں جو جنون کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ ہم ناکام ہو گئے تو ہمارا خان ناکام ہو جائے گا اور خان ناکام ہو گیا تو پھر ہم گئے کام سے"۔ پوچھا کہ صرف پانچ چھ وزیر صاحبان زیادہ کام کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے دوست وزیر صاحب نے محتاط لہجے میں کہا کہ باقی وزراء بھی کام کرتے ہیں لیکن وہ شام چار پانچ بجے کے بعد دفتروں میں نہیں بیٹھتے کیونکہ اُن کی سیاسی بقا عمران خان کی کامیابی سے مشروط نہیں عمران خان ناکام ہو جائیں، فارغ ہو جائیں تو ہمارے کئی ساتھی وزراء کو فرق نہیں پڑتا، وہ پچھلی حکومتوں میں بھی شامل تھے، موجودہ حکومت میں بھی شامل ہیں اور آئندہ جو بھی حکومت ہو گی اُس میں بھی شامل ہو جائیں گے لیکن ہم عمران خان کی وجہ سے حکومت میں آئے ہیں اور اس کے ساتھ چلے جائیں گے اور اسی خوف کی وجہ سے ہم زیادہ کام کرتے ہیں۔ اس گفتگو سے پتہ چلا کہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ ایک گروپ اُن کے پرانے ساتھیوں پر مشتمل ہے جو 2011ء سے پہلے تحریک انصاف میں آئے تھے۔ ایک گروپ نئے آنے والوں پر مشتمل ہے اور نئے آنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے کوٹے میں سے وزیر بنے ہیں۔ کل رات میں نے ایک اور وفاقی وزیر سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ اپنے وزیر اعظم کی ناکامی کے خوف سے پریشان رہنے لگے ہیں؟ یہ وزیر بھی عمران خان کے پرانے ساتھیوں میں شامل ہیں۔ اُنہوں نے جھٹ سے اس خوف کی تصدیق کی اور کہا کہ کچھ دن پہلے میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اپنے ایک ساتھی کو سرگوشی میں کہہ رہا تھا کہ ذرا اپنے دائیں بائیں اور سامنے نظر دوڑائو تمہیں اجنبیت محسوس ہو گی، تحریک انصاف کے پرانے لوگ کم اور نئے آنے والے زیادہ ہیں۔ یہ سُن کر میرے ساتھی نے کہا خاموش ہو جا، یہ جو ہمارے اردگرد لوٹے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بغیر ہم حکومت نہیں بنا سکتے تھے جس پر میں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ انہی لوٹوں کی وجہ سے ہم آئندہ کبھی حکومت میں نہیں آئیں گے کیونکہ ان کی شکلیں دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگتا ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نئے نہیں پرانے پاکستان کی کابینہ میں گھس آیا ہوں۔

عمران خان کی ناکامی کے خوف سے صرف کچھ حکومتی وزراء نہیں بلکہ اپوزیشن کی اہم شخصیات بھی خوفزدہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کی زبان سے اس خاکسار نے خود سنا کر اگر عمران خان ناکام ہو گیا تو اسے پورے پارلیمانی نظام کی ناکامی قرار دے کر نیا سسٹم لانے کی کوشش کی جائے گی۔ میں نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اپوزیشن کی اہم شخصیات کی خدمت میں عرض کیا کہ آج کے پاکستان میں کوئی نیا نظام اور نیا آئین لانا ممکن نہیں لہٰذا ان نازک حالات میں کوئی محب وطن آئین شکنی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، صدارتی نظام کے باتیں بحث مباحثے کے لئے ٹھیک ہیں لیکن صدارتی نظام لانے کے لئے لاشوں کا ایک سمندر عبور کرنا پڑے گا لہٰذا اس بحث میں الجھنے کے بجائے آپ پارلیمانی نظام کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ اپوزیشن کی ایک اہم شخصیت نے کہا کہ ہم تو اس نظام کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں اور ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ بیٹھ کر اسٹیڈنگ کمیٹیاں بھی بنا لی ہیں لیکن حکومت کے کچھ وزراء کا کیا کریں جو راستے میں روک روک کر کانوں میں پوچھتے ہیں "ہمارا کیا ہو گا؟"۔ جب ان وزراء سے پوچھا جاتا ہے کہ بھائی تم اتنے خوفزدہ کیوں ہو تو وہ کہتے ہیں کہ سانحۂ ساہیوال میں پنجاب حکومت نے جو غفلت اور غیر ذمہ داری دکھائی ہے اُس کے بعد عمران خان کا وسیم اکرم دراصل منصور اختر بن چکا ہے اور منصور اختر کو زبردستی ٹیم میں شامل رکھا گیا تو ہماری ٹیم ہار جائے گی۔

میں ذاتی طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو منصور اختر سے ملانے کے خلاف ہوں کیونکہ منصور اختر ون ڈے میچوں میں زیادہ کامیاب نہ ہوئے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ایک سنچری تو کر ہی گئے تھے۔ عمران خان کو ان کے کچھ ہمدردوں اور خیرخواہوں نے عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن خان صاحب نے مشورہ نظرانداز کر دیا۔ اُن کا خیال ہے کہ عثمان بزدار بھلے وسیم اکرم نہ بنے لیکن منصور اختر کی طرح آہستہ آہستہ کھیلتے ہوئے ایک دن سنچری ضرور بنا ڈالے گا۔ ہمیں بھی عثمان بزدار سے بڑی توقعات تھیں لیکن ابھی تک یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں اُن کی کارکردگی بہتر ہو جائے لیکن اُن کے پاس وقت کم ہے کیونکہ عمران خان زیادہ عرصہ اُن کا دفاع نہ کر پائیں گے۔ عمران خان کو اپوزیشن سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ انہیں خطرہ اندر سے ہے۔ اپوزیشن والے چھوٹی موٹی شرارتوں پر گزارا کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) والے آج کل غریبوں کو بڑا تنگ کر رہے ہیں۔ یہ شرارتی لوگ غریب مزدوروں کے پاس جا کر عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں اور جب مہنگائی سے ستائے ہوئے یہ غریب لوگ عمران خان کو برا بھلا کہتے ہیں تو ن لیگیے اپنے موبائل فون کیمروں پر اُن کی غصے بھری باتیں ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔ ن لیگ والوں نے یہ شرارتیں تحریک انصاف سے سیکھی ہیں۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اسی قسم کی شرارتیں ن لیگ سے کرتی تھی۔ دونوں جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ دونوں کو سیاسی طور پر کمزور کرے گی۔

مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کو ایک نئی ٹینشن یہ دی ہے کہ عدلیہ اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی ترک کر دی ہے۔ جب سے ن لیگ نے ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرائو ختم کیا ہے تحریک انصاف اور خاص طور پر شیخ رشید احمد کو کسی ڈیل کا شک گزرنے لگا ہے اور وہ دن رات ڈیل کی مذمت میں لگے ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس مبینہ ڈیل میں دوسرا فریق کون ہے؟ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کو کافی عرصے سے دل کی بیماری لاحق ہے۔ اگر لاہور کے سروسز اسپتال کے میڈیکل بورڈ نے یہ قرار دیا ہے کہ نواز شریف کو مستقل طور پر دل کے علاج کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور گردوں کی بھی تکلیف ہے تو اس میں ڈیل کہاں سے آگئی؟ ان بیماریوں کا علاج پاکستان میں ہو سکتا ہے لہٰذا نواز شریف کو پاکستان میں طبی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اس معاملے میں سے ڈیل تلاش کرنے کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ آپ بڑے غیر محفوظ ہیں، آپ کو یہ پتہ ہے کہ آپ چھ ماہ میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکے لہٰذا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے بجائے آپ دوسروں کے خلاف شور مچا رہے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ ڈیل یا این آر او کی باتیں کر کے آپ پاکستان کے ریاستی اداروں کو متنازع بنا رہے ہیں۔ ناکامی کے خوف سے نکلئے، کارکردگی بہتر بنایئے ورنہ کل کو آپ وہیں ہوں گے جہاں آج نواز شریف ہے۔