آج کے دور میں کسی کو بے وقوف بنانا یا فریب دینا بڑا مشکل کام ہے لیکن خود کو فریب دینا بہت آسان ہے۔ ہم اور ہمارے حکمران یہ آسان کام اکثر کرتے رہتے ہیں۔ کل شارجہ کے کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک صاحب ملے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے چھلانگ مار کر مجھے گلے لگایا اور پھر کہنے لگے:ہم کتنے زبردست لوگ ہیں، بھارت کے حکمران ہمارے خلاف جنگی جنون پھیلا رہے ہیں، بھارت کا میڈیا ہمارے خلاف چیخ و پکار کر رہا ہے اور ہم یہاں پاکستان سپر لیگ کے میچ انجوائے کر رہے ہیں۔ یہ بات سن کر میں مسکرایا اور میچ دیکھنے میں منہمک ہو گیا کیونکہ میں لاہور قلندر کے فاسٹ بائولر حارث رئوف کے ایک بائونسر کی اسپیڈ کو سائیڈ اسکرین پر تلاش کر رہا تھا۔ ان صاحب نے میچ میں میری دلچسپی کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور کہنے لگے کہ کیا آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے؟ کیا پاکستان کے خلاف بھارت کی تمام سازشیں ناکام نہیں ہو گئیں؟ اب میرے چہرے پر موجود خفیف سی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔ میں نے بڑے ادب سے گزارش کی کہ یہ تو درست ہے کہ بھارت نے پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کے خلاف جو سفارتی محاذ کھولا اس پر بھارت کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی لیکن پاکستان کے خلاف اس کی تمام سازشیں ابھی ناکام نہیں ہوئیں۔ میری بات سن کر اس مہربان نے کہا کہ آپ یہ تو مانیں کہ بھارت کی حکومت اور میڈیا پاکستان کے خلاف چیخ و پکار کر رہا ہے اور آپ یہاں سکون سے میچ دیکھ رہے ہیں، پوری پاکستانی قوم اطمینان میں ہے۔ میں نے اس بہت مطمئن پاکستانی سے کہا کہ جب دشمن جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہو تو واقعی ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے لیکن دشمن سے خبردار رہنا چاہئے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جب دشمن نے پاکستان کی کرکٹ کو تباہ کرنے کی سازش کی تو پی ایس ایل نے پاکستان کی کرکٹ کو تباہ ہونے سے بچایا لیکن آپ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کریں کہ یہ پاکستان سپر لیگ پاکستان میں نہیں متحدہ عرب امارات میں ہو رہی ہے اور ہم آہستہ آہستہ اسے پاکستان لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ کل رات کو ایک معروف غیر ملکی کرکٹر مجھے بتا رہے تھے کہ انہیں پیغام دیا گیا ہے کہ اگر آئندہ انہوں نے پی ایس ایل میں حصہ لیا تو وہ انڈین پریمیر لیگ نہیں کھیل سکیں گے۔ یہ سن کر اس مطمئن پاکستانی نے کہا:آپ گھبرائیں نہیں، پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے، ہم دشمن کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس مطمئن پاکستانی سے بحث بیکار تھی۔ دشمن کی سازشوں کی وجہ سے وہ پاکستان سپر لیگ کے میچ پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر دیکھ رہا تھا لیکن اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی یہ فریب دینے میں مصروف تھا کہ پاکستان میں سب ٹھیک ہے اور دشمن کی سازش ناکام ہو چکی ہے، اگر پاکستان میں سب ٹھیک ہے اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی بیٹھی ہے تو پچھلے ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیوں نظر نہیں آئی؟ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے پلوامہ حملے کے بعد بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بھارت کے بے بنیاد الزامات کی حقیقت کو بے نقاب کیا لیکن سوشل میڈیا پر کیا ہوتا رہا؟ سوشل میڈیا پر حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے مجھے بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مرکنڈے کاٹجو کے ایک ٹی وی انٹرویو کا کلپ بھیجا، جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ننانوے فیصد کشمیری حریت پسندوں کے حامی بن چکے ہیں اور اگر بھارتی حکومت نے کشمیریوں پر ظلم بند نہ کیا تو حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہو جائیں گے۔ میں نے تحریک انصاف کے اس رہنما کو فون کیا اور کہا کہ بھارت میں صرف مرکنڈے کاٹجو نہیں بلکہ پراشانت بھوشن سے لے کر ساگر یکاگھوش تک بہت سے لوگ نریندر مودی کے پاکستان دشمن بیانیے کی مزاحمت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سنیل گواسکر نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہ کھیلنے کی پالیسی بھی غلط ہے۔ بھارت میں ارون دھتی رائے کھل کر کشمیریوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، ہندو انتہا پسند اسے غدار کہتے ہیں لیکن جگنیش میوانی اور اشوک سوین جیسے لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھا دے یا پولیس کے ظلم کو بے نقاب کردے تو اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں علیحدگی کی کوئی پاپولر تحریک نہیں چل رہی لیکن جو بھی آئین کے اندر رہ کر اپنے حقوق مانگتا ہے، اسے بھی غدار ٹھہرانے کی کوششیں ہونے لگتی ہیں اور اس کی آواز دبانا اپنی کامیابی سمجھی جاتی ہے، اگر بھارت میں مرکنڈے کاٹجو جیسے لوگ مودی کو للکارتے ہیں، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ ریاستی جبر کے خلاف بغاوت کرتے ہیں تو یہ مودی کی ناکامی ضرور ہے لیکن پاکستان کی کامیابی نہیں ہے، کیونکہ مرکنڈے کاٹجو جیسے لوگ مظلوموں کی آواز بن کر بھارت کے وفاق کو مضبوط کرتے ہیں۔
کاٹجو اپنے ہاتھ میں ڈنڈا تھام کر مودی کو للکارتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو مجھ پر حملہ کرو میں تمہیں سبق سکھائوں گا لیکن یہی کاٹجو کشمیریوں کی بھارت سے علیحدگی کا حامی نہیں ہے بلکہ کاٹجو تو پاکستان اور بھارت کو دوبارہ یکجا کرنا چاہتا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی سرزمین کو کشمیریوں پر تنگ کیا گیا لیکن اس صورتحال میں بھارت کی سول سوسائٹی کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور کشمیریوں کے لئے امید بن گئی۔ بھارتی سول سوسائٹی کی مودی کے خلاف مزاحمت پاکستان کی نہیں بھارتی سماج کی کامیابی ہے۔ ہمیں بھی پاکستان میں اپنی سول سوسائٹی کو مضبوط بنانا چاہئے، جو لوگ پاکستان میں آئین کے اندر رہ کر حقوق مانگتے ہیں ان کی آواز دبانے کے بجائے ہمیں ان کی آواز بننا چاہئے تاکہ پاکستانی ایک دوسرے کی امید بن سکیں، جب پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے امید ملنا شروع ہو جائے گی تو پھر وہ انصاف کے لئے باہر والوں کی طرف نہیں دیکھیں گے، اس لئے ہمیں خود فریبی سے نکلنا چاہئے۔ پاکستان میں سب ٹھیک نہیں ہے، دشمن کی سازشیں بدستور جاری ہیں۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے آئین پر عملدرآمد کریں۔ آئین کے آرٹیکل 256 کے تحت پاکستان میں پرائیویٹ آرمی کی کوئی گنجائش نہیں، اس آرٹیکل پر عملدرآمد ہوتا تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو وارننگ نہ ملتی۔ ایف اے ٹی ایف کی وارننگ کو سنجیدہ لیا جائے ورنہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے اور پاکستانی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے، اگر ہم اگلے سال پی ایس ایل کو پاکستان لانا چاہتے ہیں تو ایف اے ٹی ایف کی بات سننا ہو گی، بصورت دیگر خود کو فریب دیتےرہیے، یہ تو بہت آسان کام ہے۔