1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. حامد میر/
  4. پرانی کہانی، نئے کردار

پرانی کہانی، نئے کردار

یہ ایک مردہ شہر کی کہانی ہے، جس کی سنسان سڑکوں پر بوٹوں کی ٹھک ٹھک سنائی دے رہی تھی۔ اس شہر کے لاش نما زندہ انسان دن رات موت کی دھمکیاں سنتے تھے، احتجاج پر پابندی عائد تھی۔ ریڈیو گلیوں کے آوارہ کتوں کی طرح مسلسل بھونکتا رہتا تھا اور اخبار رات کو جھوٹ سے منہ کالا کر کے اگلی صبح گھر گھر کی دہلیز پر لاش کی طرح پڑے نظر آتے۔ اس شہر کی ایک جیل کے ٹارچر سیل میں ایک قیدی پر تشدد کیا جارہا تھا۔ یہ قیدی تشدد کرنے والوں سے کہہ رہا تھا پلیز میری بات سنیں، مجھے اس وقت گرفتار کیا گیا جب میں شہر کے بند دروازے کھٹکھٹا رہا تھا کیونکہ شہر والوں کو خوف کی بیماری لگ گئی ہے، وہ خوف کی بیماری کے باعث بے ہوش ہو چکے ہیں۔ یہ قیدی بتا رہا تھا کہ میں سزائے موت سے نہیں بھاگا، میں تو اس قیامت سے بھاگ رہا ہوں جو اس شہر کو ختم کرنے آ رہی ہے۔ اس قیدی نے تشدد کرنے والوں سے کہا کہ اس سے پہلے کہ سارا شہر قبرستان بن جائے، آئو شہر والوں کو مل کر جگائیں۔ اس دوران ٹارچر سیل میں فون پر ایک حکم موصول ہوا اور حکم کے غلاموں نے اپنے قیدی کو اس کا کوئی جرم بتائے بغیر ہی گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔ یہ کہانی نور الہدیٰ شاہ نے جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں لکھی تھی۔ "مجرم" کے نام سے یہ سندھی زبان میں لکھی گئی۔ اس کہانی کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے لیکن ٹارچر سیل والوں کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ وہ جن قیدیوں پر تشدد میں مصروف رہتے ہیں، ان کا جرم صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ شہر والوں کو آنے والی قیامت سے خبردار کر رہے ہوتے ہیں۔ قیامت سے خبردار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کل رات وزیراعظم عمران خان کی ایک اتحادی جماعت کے رہنما نے مجھے پوچھا کہ آپ نے سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو علاج کیلئے 6 ہفتوں کی عارضی ضمانت کو خوش آئند کیوں قرار دیا؟ مجبوری تھی یا واقعی آپ کو عدالت کا فیصلہ اچھا لگا؟ میں نے جواب میں کہا کہ نواز شریف کو ایک نہیں کئی بیماریاں لاحق ہیں، وہ واقعی خصوصی طبی سہولیات کے مستحق ہیں، اس لئے عدالت نے انہیں علاج کی غرض سے عارضی ضمانت دے کر ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اتحادی جماعت کے رہنما نے انتہائی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا کہ یہ بیماریاں اس وقت کہاں تھیں جب نواز شریف یہ کہتے تھے کہ سپریم کورٹ کے جج ان کے خلاف بغض اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر اچانک یہ صاحب سنجیدہ ہو گئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو کہ جو کچھ نواز شریف عدلیہ اور فوج کے بارے میں کہتے رہے، اگر یہی کچھ آصف علی زرداری، اسفندیار ولی یا اختر مینگل نے کہا ہوتا تو آپ کی عدالتیں انہیں وہ ریلیف دیتیں جو نواز شریف کو دیا گیا؟ میری مسکراہٹ بھی غائب ہو چکی تھی۔ میں نے مدھم لہجے میں کہا کہ نواز شریف کو ضمانت دے کر عدالت نے نواز شریف کا موقف غلط ثابت کر دیا ہے، آپ دعا کریں نواز شریف صحت یاب ہو جائیں، ان کی صحت یابی میں صرف اپوزیشن کا نہیں حکومت کا بھی بھلا ہے۔ میری بات سن کر عمران خان کے اتحادی نے کہا آپ حکومت کا بھلا چھوڑیئے، اِس حکومت کو تو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ایک بہت بڑی قیامت ہمارے سر پر کھڑی ہے جبکہ حکومت کے وزیر کابینہ کے اجلاس میں ایک دوسرے پر قیامت ڈھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے ایک لمبا سا ہونہہ کہا اور پھر اجازت لے کر اٹھ گیا۔

واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ نواز شریف کی عارضی ضمانت پر ان کے حامیوں کے علاوہ مخالفین کو بھی شکر ادا کرنا چاہئے لیکن کچھ مخالفین اس ضمانت سے اتنے گھبرا گئے ہیں کہ کچھ سمجھ نہ آئی تو شہباز شریف پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ انہیں شک ہے کہ شہباز شریف چپکے چپکے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ خود بھی ضمانت پر ضمانت لے رہے ہیں اور آخرکار نواز شریف کے لئے بھی مستقل ضمانت حاصل کر لیں گے، اس لئے کسی نہ کسی طریقے سے شہباز شریف کو دوبارہ کہیں بند کر دو۔ وزیراعظم عمران خان تو علی الاعلان شہباز شریف کو ان کے بڑے بھائی سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں شہباز شریف کا بیانیہ اپنے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔ شہباز شریف "پاور پالیٹکس" کے داؤ پیچ آزمانے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اب نظریاتی ہو چکے ہیں اور ان کے کچھ پرستار تو ان میں ذوالفقار علی بھٹو بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ اگر نواز شریف 2018 کے انتخابات سے کچھ دن پہلے پاکستان واپس نہ آتے تو جیل نہ جاتے۔ انہوں نے جیل کا انتخاب کر کے شہباز شریف کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ وہ بڑے بھائی کے خلاف علانیہ بغاوت کردیں تو وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ شہباز شریف نے بغاوت سے انکار کیا اور یوں عمران خان کے لئے وزیراعظم بننا آسان ہو گیا۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے لیے اصل خطرہ نواز شریف نہیں شہباز شریف ہیں۔ عارضی ضمانت کے بعد نواز شریف کی زیادہ توجہ اپنے علاج پر ہو گی۔ نواز شریف کے کچھ خیر خواہوں کا خیال ہے کہ چھ ہفتوں کے بعد نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی درخواست کرنا چاہئے لیکن ان کے کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ اگر بیرون ملک جانا تھا تو پھر پچھلے سال واپس کیوں آئے تھے؟ مجھے یہ بھی علم ہے کہ 2016 میں بھی جب نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے علاج کے لیے لندن گئے تھے تو انہیں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ واپس پاکستان نہ جائیں لیکن وہ واپس آ گئے تھے۔ جو انہیں ایک دفعہ پھر بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ نواز شریف تیسری دفعہ بھی واپس آ جائیں گے۔ وہ جیل میں رہیں یا جیل سے باہر، پاکستان میں رہیں یا پاکستان سے باہر، وہ کچھ لوگوں کے لئے باعث قیامت رہیں گے۔ نواز شریف جیل سے باہر آ گئے ہیں اور آصف علی زرداری کے بارے میں یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ وہ بہت جلد جیل میں چلے جائیں گے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ بلاول کے ٹرین مارچ کا مقصد اپنے ابو کو بچانا ہے لیکن ناقدین یہ نہیں جانتے کہ ابو تو کافی عرصے سے خود جیل جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ابو کو پتہ ہے کہ وہ جیل جائے گا تو بیٹا بلاول قیامت بنے گا۔ افسوس کہ وطن عزیز میں ایک نہیں کئی قیامتیں سر اٹھا رہی ہیں۔

وہ نواز شریف جو کبھی جنرل ضیاء الحق کا سیاسی بیٹا کہلاتا تھا، کل تک نورالہدیٰ شاہ کی کہانی کا وہ کردار تھا جو ٹارچر سیل میں تشدد کرنے والوں سے کہہ رہا تھا آؤ مل کر شہر والوں کو جگائیں۔ کچھ دن بعد یہی کردار آصف علی زرداری بن جائے گا۔ نیب کا ترجمان تو یہی کہے گا کہ یہ سب ملک لوٹنے والے کرپٹ لوگ ہیں، ان کی بات نہ سنو لیکن نیب کے ترجمان کی اب وہی حیثیت ہے جو نورالہدیٰ شاہ کی کہانی کے اخبار اور ریڈیو کی تھی۔ عمران خان کی حکومت کے آٹھ ماہ گزر گئے اور لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لانے کا وعدہ سچ نہ ہوا۔ نیب نے ہمیں صرف خوف، مایوسی اور خودکشی دی ہے۔ آج کل نیب میڈیا کو قانونی کارروائی کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے کیونکہ میڈیا کی زندہ لاش کے ہونٹوں سے کبھی کبھی سچّے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں۔ میڈیا کو خوف اور دہشت کا شکار ہوئے بغیر کچھ نہ کچھ سچ تو بولنا ہو گا اور شہر والوں کو آنے والی قیامت سے خبردار کرنا ہو گا کیونکہ لاش نما انسانوں کے شہر میں رہنے سے بہتر ہے کسی قبرستان میں بسیرا کیا جائے۔ ہمیں مردہ نہیں زندہ انسان بننا ہے۔