ترمذی ہی کی ایک روایت ہے کہ "مومن کے نفس اور مال و اولاد میں آزمائش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اللہ کے پاس ملتا ہے تو اس کے ذمے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔"
یہ روایت بچپن سے سُنتے چلے آرہے تھےلیکن اِس کا صحیح مفہوم تب سمجھ میں آیا جب اللہ نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ اپنے بچّوں کی معمولی سی تکلیف بھی ایسا بےچین کردیتی ہے کہ یا اللہ جانتا ہے یا ہم۔ بچپن میں جِن چیزوں کو والدین منع کرتے تھے آج ہم اپنی اولاد کو منع کررہے ہوتے ہیں۔ اپنے کسی بھی بچّے کو انجکشن لگتا ابھی بھی نہیں دیکھا جاتا، خُون تو بہت دُور کی بات ہے۔ آج صُبح جب سُخن کدہ کا پیج کھولا تو مُحترمہ نُور العین کا کالم "سانحہ پشاور" نظر سے گُزرا۔ ایسا لگا زخم پھر سے ہرے ہو گئے۔ یہ تاریخ صرف پاکستان نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ کے صفحات پر ایسا خُون آلود نشان ہے جو کبھی بھی مٹایا نہ جاسکے گا۔ مُحترمہ نُور العین نے بڑے کمال پیرائے میں اِس سانحے کو بیان فرمایا ہے اور اُن بہادر بچّوں اور والدین کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا جو اپنی جان کا نذرانہ دے کر بھی دوبارہ اُسی سُکول میں تعلیم حاصل کرنے واپس آگئے۔ ایسا دِن دوبارہ نہ آئے یہ دُعا ہم سب کرتے ہیں۔
وہ بچّے کسی میدانِ جنگ میں نہیں گئے تھے جو شہادت کا لیبل لگا کر گھر واپس آئے۔ ہم تو اپنے بچّوں کی معمولی تکلیف کو بھی نہیں سہ سکتے، اندازہ کریں اُن والدین کا جو اُس اذیّت ناک گھڑی میں بھی اپنے بچّوں کی نہ معلوم ہونے والی خیریت کے لئے بھی میڈیا کی بریکنگ نیوز کے مُحتاج تھے۔ ایک بار تصّور بھی نہیں ہوتا کہ کیسے انہوں نے خون میں لتھڑی ہوئی اپنی اولاد کی نعشیں دیکھی ہونگی۔ وہ نغمے بھی اُس غم کا مداوا نہیں کرسکتے جو اُن بچّوں کے جانے کے بعد اُن والدین کے لئے تاحیات رہ گیا ہے۔ اِس سانحے نے پاکستان کے لوگوں کے سوچنے کا نظریہ بدل ڈالا۔ اگر یہ کہا جائے کہ 16 دِسمبر 2014 سے پہلے کا پاکستان اور 16 دِسمبر 2014 کے بعد کا پاکستان مُختلف ہے تو غلط نہ ہوگا۔ لوگوں کے نظریے بدل گئے۔ 16 دِسمبر کے بعد بچّوں کے سکول کے باہر کھڑے گارڈ کے ہاتھ کی چھڑی ایک میٹل ڈیٹکٹر اور آٹومیٹک رائفل میں بدل گئی۔ سکول کی چھت پر ٹرینڈ کمانڈو جدید اسلحے سے لیس بیٹھا نظر آنے لگا۔ غرض ہر تعلیمی ادارہ عملاً ایک جیل جیسا ماحول دکھانے لگا۔ اس سانحے کےبعد ایک بھرپُور آپریشن کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اور دہشت گردی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ لیکن جب ہم نے اس سانحے کے ماسٹر مائنڈ کو پاکستان کے نیشنل ٹی وی پر مُسکراتے دیکھا تو ایسا لگا کہ وہ اُن دکھی ماں باپ پر مُسکرا رہا ہے۔
وہ ہر ماں باپ پر ہنس رہا تھا جو اپنی اولاد اُس کے شیطانی عزائم کی تکمیل کی خاطر کھو چُکے تھے۔ وہ میرے جیسے اُن ماں باپ پر بھی ہنس رہا تھا جواِس کرب کے ساتھ ساتھ خوف میں بھی مُبتلا تھے۔ وہ بچ جانے والے عظیم دلیر بچّوں اور اساتذہ پر بھی ہنس رہا تھا۔ کیا اُس کو قرار واقعی سزا دلوانا ریاست کا کام نہیں تھا۔ وہ اب ریاست کا مہمان بن کر زندگی گُزار رہا ہے۔ اُس کو ملنے والی سزا اُس کے ہاتھوں جانے والوں کے غم کا مداوا نہیں کرسکتے لیکن کم از کم اُن کو انصاف تو مِل جاتا اور آگے آنے والے ایسی شقی القلب لوگوں کو عبرت ہوتی تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہوسکے۔ 16 دسمبر ہر سال آئے گا لیکن میری یہ دُعا ہے کہ اگلے 16 دسمبر کو اُن معصوموں کو یاد ہم اُن کو انصاف دیکر کریں نہ کہ خالی پیلی موم بتیاں جلانے کا تکّلف کرکے۔