مُعزز قارئین آج بہت عرصے کے بعد کسی سیاسی موضوع پر قلم اُٹھانے کا دِل کیا ہے، تو فوراً دل کی مان لی۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سیاست ہو یا معیشت ہر جگہ دائیں بازو ہی کی اجارہ داری دیکھی ہے۔ میڈیا ہو یا تعلیمی ادارے سب نے بائیں بازو سے وابستہ افراد کو مذہب کا دُشمن بنا کر ہی پیش کیا۔ جواب میں بائیں بازو نے بھی اپنی مُثبت شناخت بھی میڈیا کے سامنے لانے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔ بائیں بازو کی اپنی صفوں کا انتشار ہی اُس کے نہ پنپنے کی وجہ ہے۔ ابتدا میں بائیں بازو کے علمبردار اپنی سخت زبان کی وجہ سے ہمیشہ زیرِعتاب رہے ہیں۔ مُخالفین اِس کو مذہب کارڈ کھیل کر عوام کے جذبات سے کھیل لیتے۔ قومی دھارے کی پارٹیوں بشمول مذہبی جماعتوں کا پروپیگنڈا کہ سوشلزم اور کمیونزم اصل میں دہریت کی دوسری شکل ہے کافی حد تک کامیاب رہا اور یہ غلط فہمی ابھی تک قائم ہے۔ افسوس اِس بات کا ہے بائیں بازو نے بھی اس پروپیگنڈا کا توڑ کرنے میں کوئی سنجیدگی نہ دکھائی۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ترقی پسند اور بایاں بازو طبقہ عملاً پسِ پُشت چلا گیا۔ کئی سال ہمارا سوشلسٹ اورانقلابی طبقہ اپنی بقا کی جنگ بغیر کسی مدد کے لڑتا رہا۔ ایسے میں ڈاکٹر تیمور، طاہرہ جالب، کامریڈ عرفان اور میرے جیسے بہت سے گُمنام لوگوں نے ناگُفتہ بہ حالات میں بھی سُرخ پرچم تھام کر رکھا۔
پاکستان میں سوشلزم اور انقلابی سیاست کے بانیان کا ذکر ہو اور فیض احمد فیض کا نام نہ آئے ایسا کیسے مُمکن ہے۔ فیض صاحب کے بعد اُن کی صاحبزادیوں اور اہل خانہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ فیض صاحب کا نام روشن کئے رکھا اور ہر سال کی طرح امسال بھی الحمرا لاہور میں فیض فیسٹیول کا پنڈال سجایا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی رنگا رنگ پروگرام منعقد ہوئے۔ فیض فیسٹیول میں اُٹھنے والی عروج اونگزیب اور ساتھیوں کی آواز نے پاکستانی سوشلسٹ طبقے میں نئی روح پُھونک دی ہے۔
لیکن افسوس ایک جائز مُطالبے کو بھی ہمارے سوشلسٹ طبقے کی سخت زبانی نے ہمیشہ کی طرح مُتنازعہ بنا دیا ہے۔ طلباء یونین کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ وہ نرسری ہے جہاں مُستقبل کی قیادت تیار ہوتی ہے۔ لیکن افسوس اگر وہ قیادت مُحترم شیخ رشید، جناب خواجہ سعد رفیق، جناب فرید پراچہ، جناب لیاقت بلوچ جیسی ہو تو بھائی باز آئے ایسی قیادت سے۔ طلباء کا کام تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی سیاسی فکر کا جانشین بننا۔ گُزرے وقتوں میں طلباء لیڈران قومی دھارے کے سیاستدانوں کی کُرسی کے نگہبان ہوتے تھے۔ جن کا کام دھونس، زور زبردستی اور غنڈہ گردی تھا۔ کیا وہ وقت ہم دوبارہ اپنی نسل کو دینا چاہتے ہیں۔
ایک سوال میرا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی قیادت سے ہے کیا اسلامی جمیعت طلباء اور انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کا وجود آپ کے اکابرین کے نجی اداروں میں ہے۔ اگر یونین اتنی ناگُزیر ہے تو کیوں آپ کے نجی اداروں میں نہیں ہے؟
دوسرا سوال میرے کامریڈ دوستوں سے، مانا کہ لیفٹ تحریک دنیا بھر میں نئی سانسیں لے رہی ہے لیکن آپ کے جو تلخ نعرے اور جو غیر مُناسب تصاویر شائع ہویئں ہیں سے آپ نے لیفٹ کا کتنا نام روشن کیا ہے؟
میرے عزیز دوست ڈاکٹر تیمور آپ بتائیں جس یونیورسٹی میں آپ پڑھاتے ہیں کیا وہاں کسی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم کا وجود برداشت کیا جاسکتا ہے تو یہ مہربانی سرکاری اداروں پر ہی کیوں؟
کیا ریلی نکالنے والے طلباء اس بات کی ضمانت لیتے ہیں کہ یونین بحالی کے بعد طلباء کسی پُرتشدد سرگرمی یا کسی اور غیر قانونی اعمال میں ملوّث نہیں ہونگے جیسا ماضی میں ہوا تھا؟
کیا یونین طلباء کو اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مانع نہیں ہوگی جیسے جمعیت ابھی بھی طلباء کی نجی زندگی میں مُداخلت اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔
میں طلبا تنظیموں کا بہت بڑا حامی ہوں لیکن ماڈل سٹوڈنٹ باڈی جیسا ہونا چاہئے جیسا ترّقی یافتہ ممالک میں ہے جو طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کریں نہ کہ درسگاہ کے مالک و مُختار بننے کی سعی کریں۔ دوسرا ریاست اور اُردو مُخالف نعرے کسی بھی صورت قابلِ قبُول نہیں ہیں۔ ایسی آزادی نہیں چاہئے جو مُلک کی اکائی پر اُنگلی اُٹھائے۔
امید ہے میرے عزیز شاگردانِ گرامی میری بات کو سمجھیں گے۔ اِختلاف آپ کا حق ہے اور میرے صفحات اُس کے لیئے حاضر ہیں۔ اُمید ہے کہ میرے دوست میرے سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیئے میری مدد کریں گے۔