آجکل سوشل اور دیگر میڈیا پر مسئلہ کشمیر کو بزورِ جنگ حل کرنے کی مُہم زوروں پر ہے۔ جذباتی خواتین و حضرات کا پورا زور اس بات پر ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم اور آرمی چیف طِبل جنگ بجا دیں اور پاکستانی افواج سری نگر پر پرچم لہرا دیں۔ میرے خاندانی واٹس ایپ گروپ پر روزانہ جنگ کے حامی حضرات طِبل جنگ بجا دیتے ہیں۔ نہ خود بارڈر پر جاتے ہیں ہاں البتّہ فوج اور حُکومت کے خُوب لتّے لیتے ہیں۔ صُبح اُٹھ کر پہلا کام ہی ایک فارورڈ بھیج کر ساری ذمہ داری سے مُبّرا ہو جاتے ہیں۔
کشمیر میں جو ہو رہا ہے کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن جنگ بھی کوئی حل نہیں ہے۔ 1948 سے 1971 تک دونوں مُمالک جوہری طاقت نہیں تھے لیکن اب دونوں مُسّلمہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جنگ کی بات وہ کر رہے ہیں جن لوگوں نے جنگ کی تباہ کاریاں نہیں دیکھیں۔
چند سال قبل جاپان کے دورے کے دوران راقم کی مُلاقات دو عُمر رسیدہ شخصیات سے ہوئی جو اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے تھے۔ ستاسی سالہ شکوئی شیوموہیرا ناگاساکی پر جوہری حملے کے وقت 15 سال کی تھیں، اُن کا پورا خاندان اس حملے میں لُقمہ اجل بن گیا تھا۔ سن 1955 میں انہوں نے اپنے جیسے ناگاساکی کےایک اور مُتاثرہ شخص سُمٹیرو تانی گاچی سے شادی کرلی۔ اس کے بعد قیام امن کی خواہش رکھنے والے گروپ سے مُنسلک ہو کر عوام میں جنگ کی تباہ کاریوں کی آگاہی کا پروگرام چلانے لگے۔ شکوئی کے مُطابق حملے کے کئی گھنٹوں کے بعد جب انہوں نے اپنی ماں کی سوختہ نعش کو اُن کے سونے کے دانت سے پہچاننے کے بعد چھوا تو وہ راکھ کی طرح بکھر گئی۔ خود وہ زخموں سے چُور تھی۔ اُن کا آدھاُ جسم جھلس گیا تھا۔ زخم تو چند سال میں مندمل ہو گئے لیکن نشانات اتنے خوفناک تھے کہ لوگ اُن سے کراہیت کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار خودکُشی کا سوچا لیکن یہ سوچ کر ارادہ ترک کردیا کہ اگر وہ مر گئیں تو پیاروں کی قبر پر پھول کون چڑھائے گا۔ سُمٹیرو کی کہانی بھی مُختلف نہیں تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنگ سے نُقصان اُٹھایا ہو ا ہے۔
یاد رکھیں 1945 میں جنگ ختم کرنے کے دو آپشن تھے۔ جوہری حملہ یا جاپان پر سوویت حملہ۔
امریکہ اگر جاپان پر زمینی حملہ کردیتا اور دوسری جانب سوویت یونین جاپان میں داخل ہوتا تو جاپانی جلد ہی ہتھیار ڈال دیتے لیکن اس سے امریکہ کو اپنی بالادستی دکھانے کا موقع نہ ملتا اور سوویت یونین ایشیا تک وسیع ہو جاتا جو امریکہ کے لیئے قابلِ قبول نہ تھا۔ دوسری جانب جاپانی شہنشاہ کو بھی اپنی عوام کی پرواہ نہ تھی۔ وہ غیر مشروط جنگ بندی پر رضامند نہ تھا۔ اُس کی جنگ بندی کی شرط صرف یہ تھی کہ جاپان کی شہنشاہیت قائم رہے۔ اسی انا کی جنگ میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے دو لاکھ سے زیادہ افراد لقمئہ اجل بن گئے۔ جنگ بندی کے بعد اکی ہیٹو سن 1989 تک مرتے دم تک جاپان کا بادشاہ رہا، یعنی بادشاہت سلامت رہی اور آج تک ہیروشیما اور ناگاساکی کی عوام اُس اذیّت کو برداشت کررہی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جاپانی، امریکی اور سوویت یونین تینوں طاقتوں کے کرتا دھرتاؤں کو مرنے والی نہّتی عوام کی پرواہ نہ تھی بلکہ اپنا مفاد عزیز تھا۔
جنگ کا سوچنا ہے تو ایک با ر اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اپنے ہم وطنوں کو، اپنے دُشمن مُلک کے باسیوں کو شکوئی شیوموہیرا اور سُمٹیرو تانی گاچی کی جگہ رکھیں۔ زندہ بچنے کےبا وجود اُن کی زندگی جہنم تھی۔ اور شاید مرتے دم تک رہی گی۔ سُمٹیرو بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور بولے کہ ہم نے چار ہزار سنٹی گریڈ والی آگ میں جُھلس کر دیکھا ہے۔ اور اب اِس اُمید پر زندہ ہوں کہ اپنی زندگی میں جوہری ہتھیار ختم ہوتے دیکھوں۔ پتا نہیں آج سُمٹیرو یا شکوئی زندہ ہیں بھی کہ نہیں لیکن جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے دُنیا آج غیر محفوظ ہے زمانہ سرد جنگ میں بھی نہ تھی۔ آج نو مُلکوں کے پا س جوہری اثاثے ہیں۔ جن میں سے دو ہندوستان اور پاکستان ہر چند سال بعد ایک دوسرے کو للکارتے ہیں۔ دنیا بھر میں لگ بھگ بیس ہزار جوہری ہتھیار ہیں جو کہ کرّہ ارض سے ہر جاندار کی زندگی کئی دفعہ ختم کرنے کو کافی ہیں۔
تو میرےپاکستانی اور ہندوستانی بھائیو، اگر یہ ہتھیار چل گئے تو یقین جانیے نہ فتح کا جشن منانے والا کوئی بچے گا اور نہ ہی زخم چاٹنے والا۔ جذبات میں رہنے والوں ایک بار سوچنا ضرور۔