1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. زندگی تماشہ

زندگی تماشہ

کُچھ روز قبل سُخن کدہ پر مُحترم خالد زاہد صاحب کا کالم پڑھنے کا اِتفاق ہوا۔ انہوں نے بجا طور پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے مُثبت کردار کو سراہا اور اُن کو بھی میری طرح یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہندوستانی ثقافتی یلغار کے سامنے بند باندھنے میں ہمارے میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ اُن کی اِس بات سے سو فیصد مُتفق ہوں۔ گو کہ ڈراموں کا میعار حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا کے مُقابل کا نہیں لیکن اب بھی کسی بھی غیر مُلکی چینل کو ٹکر دینے سے کم بھی نہیں۔ کُچھ عرصہ قبل اپنے ایک غیر مُلکی دوست سے اسی موضوع پر تفصیلاً گُفتگو ہوئی۔ مُوصوف اس بات پر نہ صرف قائل تھے کہ موسیقی اور ڈرامہ نگاری میں پاکستان ہندوستان سے پہلے بھی آگے تھا اور آج بھی آگے ہے۔ اُن کا اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یہی دلیل کافی تھی کہ پاکستانی ڈرامے اب مُعاشرتی مسائل کو بہترین سکرین پلے اور اداکاری کی وجہ سے عوام تک بخوبی پہنچا رہے ہیں جبکہ اُن کے پاس وسائل کی وہ دستیابی بھی نہیں جو ہندوستانی میڈیا انڈسٹری کو حاصل ہے۔ موسیقی کے شعبے میں اُن کی دلیل تھی کہ ہندوستانی موسیقار پُرانے گانوں کو بے ہنگم طریقے سے ریمکس کررہے ہیں اور پاکستانی موسیقار و فنکار کم وسائل کے باوجود معیار پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی کسی بھی پاکستانی گانے کے یوٹیوب کمنٹس کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان سے زیادہ سرحد پار یہ گانا دیکھا جا رہا ہے۔

ایک فنکار اپنی محنت کی پزیرائی دیکھ کر زیادہ خوش ہوتا ہے نہ کہ اُس سے کمائی سے۔ اگر آپ کو کوئی مواد پسند نہیں آتا کام پر تو تنقید کریں لیکن فنکار کی کو ذات نشانہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کی نظریاتی سرحدوں کے مُحافظ ہیں۔

تمہید کُچھ زیادہ لمبی ہو چلی ہے۔ ہمارے مُلک کے مایاناز ایکٹر، ڈائریکٹر اور محقق جناب سرمد سلطان کُھوسٹ جن کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے انہوں نے کافی قابلِ تعریف پراجیکٹس کیئے جن کو مُلکی اور غیر مُلکی دونوں مقام پر بہترین پزیرائی ملی۔ اُن کی تازہ ترین کاوش "زندگی تماشہ" جو ایک مُعاشرتی بگاڑ پر بنائی ہوئی فیچر فلم ہے اُس کو ریلیز سے پہلے ہی مُتنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ فلم کی سٹوری نہیں بتا سکتا لیکن کیا صرف ٹریلر دیکھ کر فیصلہ کرنا مُناسب ہے کہ فلم اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اور پھر احتجاجی ٹولے کے دباؤ میں آ کر فلم کو ریلیز ہونے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے۔

ایک دفعہ سرمد کی بات تو سُنو فلم تو دیکھو پھر فیصلہ صادر کریں۔ اگر کوئی اسلامی شعائر کے خلاف بات ہوگی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ اب فلم کا سنسر ریویو بھی وہ ٹولہ کرے گا جس کو دو دن پہلے انتشار پھیلانے کے جُرم میں عدالت نے سزا سنائی۔ کیا اب ہمارے فنکاروں کو اپنی کاوش کو اسلامی یا غیر اسلامی کا لیبل بھی انہی سے لینا ہوگا۔ کیا یہ ہے نیا پاکستان۔ اس طرح کے عمل سے سنجیدہ فنکار مایوس ہو کر اچھا کام کرنا چھوڑ دیں گے اور ہم لوگ پھر ہندوستانی ثقافتی یلغار کے رحم و کرم پر ہونگے اور معتوب یہی ہمارا میڈیا ہو گا۔

میرا سرمد کو مشورہ ہے کہ بجائے اس فلم کو سنیما میں ریلیز کرنے کہ اس کو نیٹ فلکس پر ریلیز کریں تاکہ نُقصان سے بچ سکیں اور آپ کا پیغام دُنیا میں پہنچ سکے۔ آپ کا مُنتخب موضوع سنجیدہ طبقے کے لئے ہے اپنا وقت اور پیسا غیر سنجیدہ لوگوں پر ضائع نہ کریں۔

حارث مسعود

Haris Masood

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔