پچھلے کالم گوشت خوری لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ دنیا کو اِس بات کا احساس دلانا تھا کہ بغیر گوشت خوری کے ہماری زندگی کتنی بے کیف ہے۔ تحریر کو ہمارے اکلوتی مدّاح ہماری زوجہ مُحترمہ نے ہی پڑھا اور ہماری تحریروں کی واحد مدّاح بھی نہ رہ سکی۔ کیا کیا خواب بُنے تھے کہ احساسِ مظلومیت عیاں کرکے ہم کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ حاصل کر لیں گے۔ لیکن قاریئن لحم سے رسائی تو دور ہو چلی تھی اب تو دال سبزی سے شناسائی بھی کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ اب زبردستی چہرے پر مُسکان سجانی پڑ رہی ہے۔ اِس جبری تبسم کے پیچھے جو غم پنہاں ہے وہ یا تو یہ خاکسار جانتا ہے یا میرا خدا۔ بقول گُلزار صاحب
تُم اتنا جو مُسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چُھپا رہے ہو
ہم نے سوچا تھا کہ ابھی بیگم مدّاح ہوئی ہیں تو آہستہ آہستہ بچے بھی حلقہ میں شامل ہو جائیں گے۔ لیکن ہم نے اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی ماری تھی۔ اب فین شپ تو چھوڑیں گھر کی دال روٹی نشانِ احمر کے پاس آ چُکی ہے۔ کسی سیانے نے صحیح کہا ہے کہ بیویاں طالبان کی طرح ہوتی ہیں، نہ اِن کے خلاف آپریشن ہو سکتا ہے اور نہ ہی مُزاکرات ہو سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جُملہ معترضہ تھا۔
ابھی تو ہم روٹی کے ساتھ پیاز تناول فرما کے فارغ ہوئے ہیں اسی لئے خُمار گندُم میں مست ہیں، تو ایسی بُھول چُوک تو معاف ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ کِس طرح اپنی بسیار خوری کی زندگی میں واپس جایا جائے۔ لیکن فی الوقت ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
عمردراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
خیر اب رونا کیا کماں سے نکلا تیر، منہ سے نکلی بات اور قلم سے نکلا جُملہ کبھی واپس نہیں آتا۔ لاکھ معافیاں مانگ لو یقین دلانا مُشکل نہیں ناممکن ہے۔ بہت سمجھایا کہ وہ تحریر اُس ظالم ڈاکٹر جو اس وقت کہیں بیٹھ کر نہاری سے شغل کر رہا ہوگا کی مذّمت میں لکھی۔ سب سے بڑھ کر اس نا ہنجار یورِک ایسڈ کے خلاف پرچہء ایبض تھی۔ اِس تحریر کا مقصد قطعی آپ کی شان میں گُستاخی کرکے آپ کو مُشتعل کرنا نہ تھا۔ لیکن بے سُود، لہذا ہم کو پیاز روٹی پر اِکتفا کرنا پڑ گیا۔ اپنا فین سرکل تو کھو ہی چُکے تھے، اب رہی سہی خوراک بھی کھونے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اب ہم یہی سوال اپنے آپ سے پُوچھتے ہیں کہ کیا ضرورت تھی اپنا نوحہ شکم لکھنے کی۔
خیر خاصی کوششِ بسیار کے بعد محترمہ مان ہی گئیں، اور ہمیں رات کے کھانے میں مونگ کی دال کی نوید سنا دی۔ چلو صبر شکر کرکے کھا لیں گے۔ یہ درد وہی سمجھ سکتا ہے جس نے دوپہر میں پیاز روٹی کھائی ہو۔ لیکمن شرط یہاں بھی تھی کہ پچھلی تحریر کی تردید کی جائے۔ ہم بھی اُسی سانس میں مان گئے۔ بھئ تردید کونسا مُشکل کام ہے۔ جیسے پاکستان میں سابق وزیرِاعظم صاحب اپنے اور اپنے بچوں کے اثاثوں کی تردید کرتے رہے ہیں۔ جیسے ہر سانحے کے بعد ہماری مذہبی جماعتیں طالبان کے مؤقف کی تردید کرتی ہیں۔ کراچی میں کوئی بھتہ خور پکڑا جائے تو وہاں کی مقبول جماعت بھی تردید ہی کرتی تھی۔ تو قاریئن اِس تحریر کو ہماری تردید ہی سمجھا جائے۔
لیکن اہلیہ نے ہم سے وعدہ کیا کہ جب یورک ایسڈ کم ہو گا تو بہارِ لحم پھر ہمارے نصیب میں آئے گی۔ لیکن جِس طرح تردید میرے دیس میں آسان کام ہے وعدہ اُس سے بھی زیادہ آسان کام ہے۔ اب دیکھ لیں، مردِمومِن مردِحق ضیا صاحب کا نوّے دن میں انتخاب کا وعدہ، اسلامی نظام کا وعدہ، میاں صاحب کے کا کبھی نہ بھاگنے کا وعدہ، زرداری صاحب کو گھسیٹنے کا وعدہ۔ اِسی طرح ہماری اہلیہ نے بھی ہم سے ایک وعدہ کر ہی لیا۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تیرے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!