1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. حسن نثار/
  4. آئو وہ بّدو ہی بن جائیں

آئو وہ بّدو ہی بن جائیں

آئو وہ بّدو ہی بن جائیں بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں اس سچ مچ آزاد، پُر اعتماد اور بے نیاز منہ پھٹ بدو کا قصہ جس نے بھرے مجمع میں بہ آواز بلند عمر بن خطابؓ جیسے امیر المومنین سے ان کے لباس بارے بہت ہی چبھتا ہوا سوال پوچھا تھا جس پر نہ حضرت عمر جزبز ہوئے نہ مسلمانوں میں سے کسی نے بدو کی اس گستاخی پر حیرت کا اظہار کیا کہ یہی وہ رویے تھے جو خاک نشینوں کو افلاک تک اٹھا لے گئے اور اپنے وقت کی سپر پاورز ان کے سامنے سپر انداز ہو گئیں۔ عمر بن خطابؓ تو "فاروق اعظم" تھے ہی سو ان کے نقوش پا پر چلنا تو سہل نہیں لیکن ہماری بدنصیبی کی انتہاء ملاحظہ ہو کہ آج 2019ء میں بھی ہم عمرؓ تو کیا، اس گمنام بدو کی کاپی کرنے کے قابل بھی نہیں رہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اہل مغرب کی کامیابی کا اک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو اپنے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں، انہیں دیوتا یا اوتار نہیں، اعلیٰ ترین معیار کی علامت سمجھتے ہیں اور جو اس کسوٹی پر پورا نہ اترے اسے ملامت کا استعارہ بنا دیتے ہیں جبکہ ہمارا تو عمومی کلچر ہی یہ ہے کہ اول تو بولتے نہیں، بولیں تو خوشامد اور چاپلوسی بھی شرما جائے یا پھر یہ کہ..."جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں؟" یعنی ملفوف ترین قسم کا کلمۂ حق کہنے سے پہلے بھی جابر یا صابر سلطان کے سامنے "فدوی" کی عرضی برائے اذن کلام پیش ہے۔ حکمران کا اچھا برا ہونا تو بہت بعد کی بات، اصل بات یہ کہ ہم خود کون اور کیسے ہوتے ہیں؟جن سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں سے آپ کو اختلاف ہو....ان کے ساتھ تو ہے ہی، اصل بات یہ کہ جن کے ساتھ "اتفاق" ہو، ان کے ساتھ لفظ چبائے بغیر، چونکہ چنانچہ اگر مگر کے بغیر کھل کر "لائوڈ اینڈ کلیئر" انداز میں سرعام اختلاف کیا جائے، دو ٹوک انداز میں اعتراض کیا جائے تاکہ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو قائل کر سکے بصورت دیگر نکاح بھی کبھی کبھی طلاقوں پر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں سبب اس کا کوئی پوائنٹ سکورنگ ہرگز نہیں بلکہ صورتحال میں بہتری کے امکانات کی تلاش ہوتا ہے، مثبت تنقید تو تعمیر کی بنیادی اینٹوں میں سے ایک ہے لیکن ہماری تو دنیا ہی نرالی ہے جس کا صحیح اندازہ پچھلے دنوں اس وقت ہوا جب میں اک ٹی وی انٹرویو میں پھٹ پڑا جو اچانک نہیں کیونکہ میں پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا کہ میزبان کے سوالوں نے ہتھے سے اکھاڑ دیا۔ نتیجہ؟ سوشل میڈیا سے دیگر میڈیا تک اک ننھا منا سا بھونچال حالانکہ پس منظر میں صرف ایک سوال تھا جو مجھے مسلسل ہانٹ کر رہا تھا اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو پے در پے جھک در جھک مار چکیں، بری طرح ناکام ہو بھی چکیں، ہمیں "ناکام" کر بھی چکیں اور اب اگر خدانخواستہ تحریک انصاف بھی ڈلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ہو گا کیا؟ بنے گا کیا؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے مایوسی کے دوران تو پھر PTIپائپ لائن میں دکھائی دے رہی تھی لیکن اب اگر یہ بھی "رہ" گئی تو آگے دکھائی ہی کچھ نہیں دے رہا....یہی وہ فرسٹریشن، پریشانی یا سوال تھا جو چھوٹے سے بھونچال کی شکل اختیار کر گیا۔ میرے فیورٹ ایاز امیر، نصرت جاوید اور برادر بزرگ ہارون الرشید سے لے کر با کمال جواں سال رئوف کلاسرا تک اور ہمدم دیرینہ محمد علی درانی سے لے کر ممتاز قانون دان، صاحب فکر بابر اعوان سے لے کر اسد عمر سے کہیں دراز قامت مفتاح اسماعیل تک بہت ہی ممتاز اور قابل ذکر لوگوں کے علاوہ دیگر خواتین و حضرات نے بھی طبع آزمائی کی اور چشم بددور سوشل میڈیا تو سوشل ہے ہی۔ ادھر میں سر پکڑ کے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا کر بیٹھا ہوں۔ سچی بات ہے میرے اس "کیا کہہ بیٹھا؟" کا جتنا بھرپور، مدلل، مضبوط اور خوبصورت جواب روئوف کلاسرا نے دیا، اس پر چشم بددور ہی کہا جا سکتا ہے حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ لیڈر، دیوتا، اوتار، اولیاء نہیں ہوتے اور سیاسی جماعتیں در گاہیں، خانقاہیں نہیں ہوتیں۔ تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسادونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں ہم جیسوں نے تو جوانی میں بھی کوئی عشق غیر مشروط نہیں کیا۔ بندہ اپنے خالق و مالک و رازق کی عبادت بھی اس امید پر کرتا ہے کہ جنت مع لوازمات حسب وعدہ انعام ملے گی تو انسانوں کی کیا حیثیت؟اور کیا کروڑوں پاکستانیوں کے نصیب میں صرف قصے، کہانیاں، وعدے اور ٹرک کی بتیاں ہی رہ گئیں؟ ایسا ہے تو صرف ٹرک کی بتیاں ہی نہیں، پورا ٹرک ہی توڑ دینا چاہئے۔ اس سارے ایپی سوڈ کا خوب صورت ترین پہلو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے جتنے قائدین تشریف لائے، کسی نے میری کسی بنیادی بات سے اختلاف نہیں کیا..... یہاں تک کہ خود عمران خان کو بھی میرے تحفظات پر نہ کوئی اختلاف تھا نہ اعتراض۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ ہم عمر بن خطاب ؓبننے کے قابل تو ہیں نہیں.... لیکن کم از کم وہ بدو تو بن سکتے ہیں جو اپنے حکمران کو اپنے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کی طرف جاتا ہو۔ خود پر نہ سہی اپنی اولادوں پر ہی رحم کھائو!