ایک تو حکومت عددی طور پر کمزور اور اتحادیوں کے سہارے کی محتاج ہے تو دوسری طرف۔ مہینے بعد بھی ڈلیوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ الٹراسائونڈ رپورٹ بتاتی ہے، اندر اسد عمر جیسی رسولی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے اور جو شور مچا تھا کہ "پائوں بھاری ہے" تو وہ بھی غلط نکلا کیونکہ پائوں کے بھاری پن کی وجہ صرف یہ ہے کہ پائوں میں اقتدار کی موچ آگئی جس کی سوجن سے پائوں بھاری محسوس ہونے لگے ورنہ لینا دینا کچھ نہیں۔ حکومت کی حالت ایسی ہے کہ اسحاق ڈار جیسا مفرور اور مطلوب (WANTED) شخص بھی جگتیں مارنے لگا ہے۔ اللہ، اسد عمر کی عمر اور عقل دراز کرے جس کی اصل کمائی یہ ہے کہ اسحاق ڈار "کنٹریکٹ" پر کام کرنے کو تیار ہے تاکہ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے میں مدد دے سکے یعنی عطار کا لونڈا بری طرح بیمار کرنے کے بعد مریض کو دوا کی دوسری ڈوز آفر کر رہا ہے جبکہ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کیس دوا دارو سے بہت آگے کا ہے اور مریض میجر سرجری کے بغیر سنبھلتا دکھائی نہیں دیتا۔ حکومتی ضعف، زبوں حالی اور کسمپرسی کی انتہا یہ کہ بلاول اور اس کے ابو بھی آنکھیں دکھانے بلکہ دھمکیاں دینے لگے ہیں اور دھمکیاں بھی کیسی؟"حکومت گرانے کا وقت آگیا""18 ویں ترمیم کو چھیڑا تو لات مارکر حکومت ختم کردوں گا۔ راولپنڈی پھر ہمارے لئے کربلا بننے والا ہے۔ پاکستان کھپے"فیم فیملی کے ان بیانات کو ڈی کوڈ کئے بغیر چند معروضات۔ پہلی یہ کہ اس بار برسی کچھ کھل کے نہیں برسی تو کچھ بھی کرنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ "رستم و سہراب" اس پھیکے پن کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور کریں اور یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ بند مٹھی سے ریت پھسلنے لگے تو پھر مٹھی کے خالی ہونے تک رکنے کا نام نہیں لیتی۔ ضمناً عرض کرتا چلوں کہ میں نے باپ بیٹے کے لئے "رستم و سہراب"کی اصطلاح بہت سوچ سمجھ کر استعمال کی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ ان سیاسی رستم و سہراب پر کبھی صادق نہ آئے۔ یوں تو پہلے ہی کچھ دیر ہو چکی لیکن زرداری صاحب اب بھی "بھریا میلہ" چھوڑ دینے کی حکمت پر غور کرلیں تو شاید مناسب ہو۔ لات مار کر حکومت گرانے کے لئے لات بہت ضروری ہے اور لات کا صحت مند ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری۔ پولیو زدہ لات تو اپنا بوجھ بھی نہیں اٹھاسکتی۔ رہ گیا دولتی مار کر بم پھوڑنا تو یہ بھی خاصا رسکی کام ہے۔ درپیش مسائل کا اکلوتا حل ہے جعلی اکائونٹس کا اصلی جواب۔ خدا جانے یہ کس کی بدنصیبی ہے کہ سیاستدانوں اور مختلف قسم کے حکمرانوں کے پاس دنیا کے ہر سوال کا جواب ہوتا ہے، یہاں تک کہ ان سوالوں کے جواب بھی جو ان سے پوچھے ہی نہیں جاتے لیکن منی ٹریل سے لے کر جعلی اکائونٹس تک اصلی سوالوں کے جواب کوئی نہیں دیتا لیکن ہمیں کیا کہ یہ معاملہ تو سوال پوچھنے اور جواب دینے والوں کے درمیان ہے۔ ہم بے چارے تو فی الحال تبدیلی کے تیور ہی انجوائے کر رہے ہیںلیکن اتنا تو یاد دلایا جا سکتا ہے کہ حضور!طاقت کا سرچشمہ تو آپ کے لئے کب کا سوکھ چکا، سندھ میں بھی سمٹائو اور سکڑائو کا پراسیس جاری ہے۔ سندھ میں اقتدار کے لگاتار گیارہ سال بعد بھی آپ نے کون سا ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ عوام ہر انجام بالائے طاق رکھتے ہوئے سراب کے پیچھے بھاگتے رہیں؟رہ گیا پنجاب جس نے بھٹو کو قائدعوام کے مقام تک پہنچایا تھا تو اعتزاز احسن نے یہ بات دل رکھنے کے لئے کی ہوگی کہ "بلاول پنجاب آئیں، لوگ ان کو دیکھنے کے لئے بے چین ہیں"۔ اب تو شاید کوئی اصلی بھٹو کے لئے بھی باہر نہ نکلے کہ پلوں کے نیچے سے کروڑوں اربوں کیوسک پانی گزر چکا اور سچ پوچھو تو پل ہی باقی نہیں رہے کیونکہ یہ پلوں نہیں اوورہیڈز اور انڈر پاسز کا زمانہ ہے، یہ رنگ روڈز اور بائی پاسز کا کلچر ہے، تانگے ختم اور اوبر شروع، یہ خطوط نہیں میسجز کا موسم ہے، داس کلچہ نہیں پیزا اور برگر، پراٹھا نہیں پاستا،تھرو اوے (THROW AWAY) کلچر جڑیں پکڑ چکا جو ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آرہا۔ "تھرو اوے" سوسائٹی میںمشروب پی کر بوتل اور سینڈوچ کھا کر ڈبہ ہی نہیں، پرفارمنس دیکھ کر لیڈر بھی ڈسٹ بن میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ وہ وقت گئے جب ہائی پروفائل سکولوں اور ٹاٹ سکولوں کے درمیان عموماًہوتا ہی کچھ نہ تھا، اب جو فصلیں، یہ نسلیں تیار ہور ہی ہیں، ان کے لئے لیڈر چاکر ہوں گے، دیوی دیوتا نہیں جو جھروکوں میں درشن دیتے تھے۔ اب راشن کی بات کرو، بنیادی سہولتوںاور ضرورتوں کی طرف آئو ورنہ اربن سنٹرز تو گئے سمجھو، اور یہ وائرس دور دور تک پھیلتا چلا جائے گا، لیکن "حقیقی تبدیلی" کا یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے جس پر عنقریب کچھ عرض کروں گا۔ فی الحال یہی کافی ہے کہ پیپلز پارٹی نے جو "ٹرین کارواں" پنجاب لانے کا فیصلہ کیا ہے... کر دیکھے۔ نسل در نسل لیڈروں کی طویل عمروں کا موسم تیزی سے سکڑ رہا ہے لیکن پھر بھی آزما دیکھو۔ تازہ ترین حکومت کی کارکردگی پر جتنا اور جیسا ردعمل سامنے آ رہا ہے، اس میں عقل مندوں کے لئے لاتعداد اشارے ہیں اس لئے سیاستدانوں کی کمیونٹی کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنی کار کردگی، کردار اور کرتوتوں پر توجہ دے کہ مستقبل قریب میں اور کچھ کام نہیں آئے گا کہ اشرافیہ کا وضع کردہ نظام کچھ کرے نہ کرے، اک نظام اللہ کا بھی تو ہوتا ہے۔