وزیراعظم سےلیکر وزراء تک کو بار بار یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے کہ "کسی کو NRO نہیں ملے گا NRO کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں "کوئی ڈیل ملے گی نہ ڈھیل، صرف اندر کرنے کا دھکا ملے گاوغیرہ وغیرہ۔ "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے "یا وہ معروف محاورہ کہ "جہاں دھواں ہو، وہاں آگ ضرور ہوتی ہے " ....یہ کمبخت آگ بھی عجیب شے ہے جو کبھی جلا دیتی کبھی کندن بنا دیتی ہے۔ پیٹ کی آگ سے تنور کی آگ تک، انتقام کی آگ سے آتش فشاں کی آگ تک اس کی ان گنت قسمیں ہیں اور اس کے پیچھے بھی ان گنت کہانیاں ہیں کہ آگ لینے آئی تھی لیکن گھر کی مالکن بن بیٹھی۔ چتا کی آگ کا راگ ہی اور ہے اور وہ آگ کتنی مقدس ہو گی جس کی پوجا ہوتی تھی یا جس میں غیرت مند راجپوتوں کی عورتیں ہنستے کھیلتے اس لئے کود جاتی تھیں کہ شکست کے بعد دشمن ان کی اہانت نہ کر سکے۔ آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہیہ زیادہ اہم ہے یا وہ لمحہ جب انسان نے آگ پر دسترس حاصل کی۔ یونانی دیومالا کا وہ دیوتا بھی یاد آتا ہے جس نے انسان کو آگ عطا کرنے کی بھیانک ترین سزا بھگتی۔ شاید پرومیتھیئس نام تھا اس کا۔ اپنا غالب نامی وہ نابغہ بھی یاد آتا ہے جس نے پہلی بار ماچس دیکھ کر بے اختیار کہا تھا ...یہ کیسی قوم ہے جو جیب میں آگ لئے پھرتی ہے۔ حسد کی آگ بھی بہت مقبول ہے اور نوری و ناری کے درمیان بھی پل صراط جیسی باریک لکیر ہے اور پھر آگ کا پُتلا ابلیس جسے یہ غلط فہمی ہو گی کہ جہنم کی آگ بھلا آگ کا کیا بگاڑ لے گی۔ معاف کیجئے میں کہاں سے کہاں نکل گیا۔ بات چلی تھی NRO پر بیان بازی سے کہ جہاں دھواں دکھائی دے وہاں آگ ضرور ہوتی ہے اور NRO کے بھی اتنے ہی پہلو اور شیڈز ہیں جتنے آگ کے۔ سب سے پہلے ان کی طرف چلتے ہیں جو اس خیال کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں کہ لوٹی ہوئی ملکی دولت کبھی واپس بھی آ سکتی ہے حالانکہ خود یہ خیال بھی خاصا خام اور احمقانہ ہے کیونکہ اگر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے شاہی خاندان سے کھربوں ڈالر وصول کر سکتا ہے تو ہمارے ان بیچارے کمی کمین لٹیروں کی کیا مجال کہ مال مسروقہ پیش نہ کریں لیکن "یہ سکول آف تھاٹ" بھی اس لئے سچا ہے کہ کتکتاریاں نکال کر اورپروٹوکول کی پینگیں جھلا کر تو واقعی ہمارے احتسابیےایک پائی بھی نہیں وصول سکتے۔ ہمارے ہاں تو قانون کی حکمرانی کا اصل مطلب ہی قارون کی حکمرانی ہے۔ اصل اوقات ہماری اس جمہوریت کی یہ ہے کہ مائیں ہمیں لوریاں دے کر اس لئے جوان کرتی ہیں کہ ہمارے حکمران ہمیں لارے لگا کر قرضوں کی قبر میں دفن کرکے سرے محلوں اور ایون فیلڈوں میں ہماری برسیاں منائیں۔ ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حُسن والوں نےگورے گورے گالوں نے تھوڑے تھوڑے بالوں نےانہیں بھی عام چوروں کی طرح کسی رینکر ایس ایچ او کے سپرد کرو۔ 24 گھنٹوں میں ڈالروں کا کوہ ہمالیہ نہ کھڑا ہو جائے تو میرا نام بھی بدل دینا، میرا چام بھی اتار لینا بصورت دیگر میرا لاڈلا آفتاب اقبال بھی سچا اور ایاز امیر بھی سچا، صرف میں جھوٹا میرے آبائو اجداد جھوٹے جنہیں 63-62 کا صدقہ قرار دے دیا جائے تو مجھے بھی قرار نصیب ہو جو واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں قانون کی حکمرانی کو قارون کی حکمرانی قرار دینے کے گناہ کبیرہ کا رضاکارانہ طور پر اعتراف کرتا ہے اور اس پر قائم رہنے کی قسم بھی اٹھاتا ہے۔ اس بدنام زمانہ اور ظالمانہ NRO کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ سرعام مال مسروقہ کا 80، 90 فیصد بھی واپس کر دیں تو انہیں اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے دیا جائے کیونکہ یہ اندر ہوں تو مہنگے پڑتے ہیں، باہر ہوں تو بہت ہی مہنگے پڑتے ہیں۔ میں نے برسوں پہلے بار بار لکھا کہ مملکت خدادادمیں اک مخلوق ایسی بھی ہے جس نے پاکستان صرف حکومت کرنے کیلئے رکھا ہوا ہے اور عوام کو صرف اس لئے زندہ رکھتے ہیں کہ وہ نہ ہوں تو حکومت کن پر کریں؟ NRO پر مباحثے، مناظرے، مکالمے اور بہت کچھ جاری ہے تو اس سلسلہ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر اس بار بھی احتساب ایکسرسائز سے کچھ نہ نکلا تو یہ کسی سانحہ+حادثہ+المیہ سے کم نہ ہو گا جو قوم کی اجتماعی نفسیات کو برباد کر دے گا، یہ لفظ گالی بن جائے گا، ہرشے سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا اور کرپشن ہی ہماری اکلوتی پہچان بن جائے گی۔ اب تک تو قانون کی آڑ میں قارون کی حکمرانی کا کلچر عام ہے ....یہ بھرم اور تکلف بھی ختم ہو جائے گا۔ CICERO کہتا ہےʼʼTHE WELFARE OF THE PEOPLE IS THE HIGHEST LAW" WELFARE OF THE PEOPLEتودور کی بات ....یہاں تو"TOO MANY LAWS ARE PASSED ...THEN BY PASSED"ہر قارون ہر قانون کو "بائی پاس" کر سکتا ہے اور اگر یہ کلچر تبدیل نہ ہوا تو تاریخ بھی ہمیں "بائی پاس" کرکے گزر جائے گی۔