ذرا غور کریں کہ یہ جھوٹ بولنے سے پہلے آپس میں نوٹس کا تبادلہ بھی نہیں کرتے۔ سمجھ نہیں آتی کوئی شخص انسانوں کو کس حد تک احمق اور بیوقوف سمجھ سکتا ہے۔ مریم نواز، نواز شریف اور شہباز شریف کے مندرجہ ذیل بیانات آپ سب نے بھی ٹی وی پر دیکھے ہوں گے لیکن کسی قاری نے ان تینوں کے بیانات یکجا کرکے اس خواہش کے ساتھ بھجوائے ہیں کہ انہیں ایک ساتھ پڑھنے کا امپیکٹ ہی اور ہے جس سے صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ معصوم عوام کن کاریگروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔
سب سے پہلے مریم۔ ’’حسن حسین کے پاس آج جو بھی ہے وہ ان کے والد سے ان کو نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ یہ پیسہ کہاں سے آگیا کہ بچے اتنی چھوٹی چھوٹی عمروں میں امیر ہوگئے اور ارب پتی ہوگئے۔ اس ارب پتی دادا کے پوتے ہیں جو 1960۔ 1970 میں پاکستان کا امیر ترین انسان تھا۔ ‘‘نوٹ:کوئی پوچھے کہ امیر ترین نے اس دہائی میں انکم ٹیکس کتنا دیا اور ٹرن اوور کتنا تھا؟اب چلتے ہیں نواز شریف کے خطاب کی طرف۔ ’’1970 تک ’’اتفاق‘‘ کو سٹیل اور انجینئرنگ کی سب سے بڑی صنعت کا مقام مل چکا تھا۔ نیشنلائزیشن سے قبل اتفاق فائونڈری کا منافع ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں حضور! کروڑوں میں تھا۔ ‘‘آخر پر دیکھئے شہباز شریف فرماتے ہیں۔ ’’میرے خاندان کا 22 خاندانوں میں شمار نہیں ہوتا تھا۔ مجھے اس کے اوپر فخر ہے کہ میر ےوالد کا تعلق ایک غریب کسان کے گھرانے سے تھا۔
ہندوستان سے وہ ہجرت کرکے آئے اور 30 کی دہائی میں میرے والد صاحب نے لاہور میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مزدوری شروع کی اور اس طرح کاروبار میں آئے۔ ‘‘کوئی پوچھے کہ کاروبار میں تشریف آوری کے بعد پہلے دس سال کا ٹوٹل ٹرن اوور کتنا تھا اور کس کس مد میں کتنا ٹیکس ادا کیا کرتے تھے اور آج بڑے میاں صاحب مرحوم کے بچوں کے مقابلہ پران کے باقی سگے بھائیوں کے بچوں یعنی نواز شہباز کےکزن برادرز کی مالی حیثیت کتنی ہے اور اگرصرف شریف برادران ہی باقیوں سے ہزاروں گنا آگے ہیں تو سوائے ’’سیاست‘‘ کے انہیں کون سے سرخاب کے پر لگے تھے جبکہ یہ تو کاروبار کی بجائے ہول ٹائم سیاست میں بھی مصروف رہے۔ کیا باقی بھائیوں کی ساری اولاد نہلوں پر مشتمل تھی جو آج ان کے سامنے پانی بھی نہیں بھرتے؟میں نے یہ انتہائی بور کردینے والی بات اس لئے چھیڑی ہے کہ ان کا جو جی چاہے کریں لیکن خدارا عوام کو اتنے بھونڈے بے تکے طریقے سے بیوقوف بنانا ترک کردیں۔ ہم بیوقوف بننے کے لئے تیار ہیں لیکن پلیز! یہ ’’کارِ خیر‘‘ ذرا قرینےسلیقے سے سرانجام دیں اور بیانات داغنے سے پہلے آپس میں تبادلہ خیالات ضرور کرلیا کریں۔
سالوں پہلے شہباز صاحب نے ایک کتابچہ سا لکھا جس کا عنوان تھا ’’عزم و ہمت کی داستان‘‘ جس میں اس خاندان کی جدوجہد کی داستان تھی۔ میری لائبریری ’’بیلی پور‘‘ کی ’’ہانسی حویلی‘‘ سے ہمارے شہر والے گھر تک منقسم اور منتشرہے۔ یہ کتابچہ انہی میں کہیں گم ہے جس کی کھوج کا ارادہ ہے۔ اگر کسی قاری کے پاس موجود ہو، مجھے اس کی فوٹو کاپی بھجوادے تاکہ میں مشقت سے بچ جائوں۔ غریب ہونا نہ طعنہ ہے نہ جرم نہ گناہ بلکہ شاید بل گیٹس نے ہی کہا ہے کہ ’’غریب پیدا ہونا جرم نہیں، غریب مرناجرم ہے‘‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جرائم کے جال سے غربت پر قابو پایا جائے۔ سیلف میڈ ہونا اللہ کا احسان اور سعی کی نشانی ہے لیکن حقائق مسخ کرنا اور وہ بھی کرتوتوں پر پردے ڈالنے کے لئے، تو یہ کم از کم ’’لیڈروں‘‘ کو زیب نہیں دیتا۔ اللہ جانے کیوں شہبازشریف مجھے ہمیشہ نسبتاً زیادہ جینوئن لگے لیکن پنجاب میں ’’ہینڈز اپ‘‘ کرتے ہوئے یہ کیوں کہہ دیاکہ ’’کالے دھندے میں منہ نہیں کالا کرنا چاہتا‘‘ تو کوئی پوچھے حضور! چھانگا مانگا میں ضمیروں کی منڈی بلکہ نیلام گھر کس گھرانے کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے؟
کاش آپ اب بھی ترمیم کرلیں اور سرعام یہ اعتراف کریں کہ میں اپنے بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلنا پسند نہیں کرتا۔ باقی بچے اپنے مولانا فضل الرحمٰن جنہوں نے 14 اگست نہ منانے کی ’’دھمکی‘‘ دی ہے تو اس پر لال حویلی کے بیلی شیخ رشید نے بے رحمی سے پرانے زخم کریدتے ہوئے یہ تاریخی سچ بیان کردیا کہ مولانا کے بزرگ تو قیام پاکستان کے ہی خلاف تھے اس لئے آپ کا ’’یوم آزادی‘‘ منانا نہ منانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ واقعی تقریباً 22 کروڑ میں سے ایک آدھ نہ بھی منائے تو ’’یوم آزادی‘‘ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت نہیں کرنی آئی تو اپوزیشن کرنا ہی سیکھ لو۔