طاقت اور تباہی سگی اور جڑواں بہنیں ہیں۔ طاقت اور تباہی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ طاقت اور تباہی لازم و ملزوم ہیں۔ طاقت اور تباہی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ طاقت اور تباہی تاریخ کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ طاقت اور تباہی ایک ہی ترازو کے دو پلڑے ہیں۔ طاقت ماں اور تباہی اس کی اولاد ہے۔ طاقت آگ اور تباہی اس کا دھواں ہے۔
طاقت بپھرا ہوا دریا اور تباہی اس کا سیلاب ہے۔ طاقت صحرا اور تباہی اس کا صحرائی طوفان ہے۔ ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘واقعی 21 ویں صدی کے انسان کے لئے یہ سب رسوائی، ندامت اور شرمندگی کا باعث ہے لیکن جیسے سانس اور آکسیجن، پانی اور پیاس، زندگی اور موت، غم اور آنسو، خوشی اور قہقہہ ہمیشہ آپس میں ’’رشتہ دار‘‘ تھے اور رہیں گے اسی طرح انسان کتنا ہی مہذب کیوں نہ ہو جائے، کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے۔ ۔ ۔ ۔ طاقت اور تباہی موجود رہیں گے اور ان کا اٹوٹ رشتہ بھی قائم رہے گا۔ بات سمجھ آ جائے تو کچھ قرار آ جائے۔
ریکارڈ ہسٹری میں ’’طاقت‘‘ کب نہیں تھی اور ایسا دور، وقت یا عہد کہاں لکھا ہے جب اس نے حسب توفیق تباہی نہ مچائی ہو؟ تاریخ ِ انسانی میں کوئی ایک ایسی طاقت تو بتائیں جس نے ’’توسیع پسندی کا شوق‘‘ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے کم طاقتوروں یا کمزوروں پر اپنا ایجنڈا نافذ یا مسلط نہیں کرنا چاہا۔ اور یوں بھی ہوا کہ طاقت خود اپنی ہی تباہی کا باعث بن گئی۔ "When you grow fat you can not run fast"جونک کو دیکھا کبھی آپ نے ؟جو خون پینے میں مست اور مدہوش ہو کر یہ بھی بھول جاتی ہے کہ مزید خون پینا اس کے اپنے لئے خطرناک ثابت ہو گا اور پھر بالآخر خون پیتے پیتے خود ہی پھٹ جاتی ہے۔
طاقت کی تازہ ترین واردات افغانستان یا عراق فلسطین، کشمیر نہیں بلکہ اقوام متحدہ ہے، جسے پائے حقارت نے روند کر رکھ دیا۔ یہ پہلے بھی طاقتوروں کی لونڈی تھی، لیکن پھر یوں ہوا کہ ان طاقتوروں میں سے ایک کچھ زیادہ ہی طاقتور ہو گیا۔ اقوام متحدہ پہلے بھی کچھ مخصوص اشاروں پہ ناچتی تھی لیکن اب صرف ایک انگلی اٹھتی ہے اور پوری اقوام متحدہ بیٹھ جاتی ہے۔ اقوام متحدہ پہلے بھی کوئی توپ نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ ایسی ہی تھی لیکن اس کا کچھ نہ کچھ بھرم ضرور تھا۔ ۔ ۔ ۔ فرق یہ کہ اب یہ بھرم بھی باقی نہیں رہا۔
رہ گئے وہ لوگ جو خوش کرنے اور خوش رہنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ امریکہ۔ ۔ ۔ ’’تنہا ‘‘ ہو گیا، تو جان لیں کہ ’’تنہائی ‘‘ بھی تباہی کی طرح طاقت کی ایک صفت ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ’’طاقت‘‘ صدقے، خیرات، زکوٰۃ کی صورت نہیں ملتی اور نہ ہی یہ آم، آڑو، اور امرود اور سیب کی طرح درختوں سے کھونچی جاسکتی ہے، نہ کپاس کی طرح پودوں سے چُنی جاسکتی ہے اور نہ ہی گندم کی فصل کی طرح کسی کھیت سے کاٹی جا سکتی ہے۔ طاقت دنیا کے کسی سپرسٹور یا شاپنگ مال پر کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں ہے۔ ’’مُل وکدا سجن مل جاوے تے لے لواں میں جند ویچ کے‘‘یعنی محبوب کہیں قیمتاً ملتا ہو تو جان کے عوض بھی خرید لوں۔ لیکن طاقت۔ ۔ ۔ جان کے عوض بھی نصیب نہیں ہوتی، ورنہ ویت نام سے لیکر جرمنی اور جاپان کسی بھی جگہ جان دینے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی اور مسلمان تو یوں ہی سر ہتھیلی پہ لئے پھرتا ہے۔
فی زمانہ طاقت کا حصول بڑی تپسیا، ریاضت اور چلاکشی مانگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ جان جوکھوں سے بھی کچھ آگے کام ہے جس کے لئے ایک بار نہیں۔ ۔ ۔ بار بار مرنا پڑتا ہے۔ جائو کسی سچے ریسرچ سکالر سے پوچھو کہ زندگی سُولی پر کیسے گزاری جاتی ہے؟ اور یہ کتنا بڑا ’’جوا‘‘ ہے جس میں کوئی نہیں جانتا کہ بازی کا نتیجہ کیا ہوگا؟ آخر پر عرض کروں گا کہ طاقت کی تاریخ نے میرے کانوں میں چپکے سے کہا، پیادوں پر انہوں نے فتح پائی جنہوں نے پہلی بار گھوڑے کو ’’جنگی مشین‘‘ کے طور پر استعمال کیا اور پھر ان پر وہ غالب آئے جنہوں نے ’’لگام‘‘ کا استعمال شروع کیا اور پھر ان پر وہ کامیاب رہے جنہوں نے گھوڑوں پر کاٹھی ڈال کر ان کا استعمال مزید بہتر کر لیا۔ کاش ساری انسانی تاریخ میں نے لکھی ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو دوستوں کی دلداری کے لئے ان کی خواہشوں کے مطابق ایڈٹ (EDIT)کر دیتا لیکن افسوس ایسا ممکن نہیں۔ اگے تیرے بھاگ لچھئی!