اسلامی اصطلاح یا شریعتِ اسلامیہ میں الٰہی کا تصور وہ ایک اکیلی واحد ذات جو تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے، عقلِ انسانی اس بات سے قاصر ہے کہ وہ الٰہی (اللہ) کا تعارف یا اسکی خوبیاں بیان کر سکے کیونکہ اللہ کریم خود فرماتا ہے کہ اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی تو پھر بھی اللہ کریم کی باتیں (تعریفات) بیان نہیں ہو سکتی۔
لہٰذہ علم ہی وہ کسوٹی ہے جس سے اللہ کریم کی ذرے برابر معرفت حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ اللہ کی معرفت اللہ کی مدد سے ممکن ہے اور جس نے جتنا اس معرفت کے سمندر میں غوطہ لگایا اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل کر لے گا۔ اور انسانیت کی تمام تاریخ میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی سب سے زیادہ اللہ کریم کی معرفت حاصل کر پائے۔
چنانچہ صرف علم ہونا معرفت کی دلیل نہیں بلکہ کامل و پختہ علم کیساتھ ساتھ تجسس و جدوجہد اور ربوبیت کی مدد مانگنے سے ہی آنکھوں میں وہ بصارت اور نور پیدا ہوتا ہے جو سمندر میں ذرے کو دیکھ سکے، وحدانیت کے راز و اسرار دیکھ سکے۔ لہٰذہ ربّ کائنات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے تین اصولوں کا پورا ہونا ضروری ہے۔
1۔ رحمتِ خداوندی اور مدد
2۔ عقلِ سلیم
3۔ علمِ کامل
رحمتِ خداوندی ہوگی تو وہ اپنے بندے کو عقلِ سلیم عطا کرے گا اور عقلِ سلیم ہی علم کی معراج ہے۔ علم بذات خود کوئی نتیجہ نہیں بلکہ عقل کامل کر لینا علم کا اصل ہے، اور علم کا اصل ہی ربِّ کائنات کی رحمت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ عقلِ سلیم علمِ کامل کے بغیر ادھوری و بےمعنی ہے۔ منطق، حقیقت، معرفت، نحو، صرف، ان سب پر مہارت حاصل کرنے سے عقل کامل ہوتی ہے۔
البتہ چونکہ بحیثیت مخلوق، انسان عالمِ ارواح میں وحدانیتِ خدا اور وجودِ خدا کا پکا سچا اقرار کر چکا ہے اسی لیے شعوری یا غیر شعوری طور وجودِ خدا کا انکار منطقی، عقلی اور نظریاتی طور ناممکن ہے۔ اور ایسا کرنے والا عقل کا دعوے دار نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے پاس ایسے کوئی پختہ ثبوت نہیں جس سے مظاہرِ کائنات کا سچ اور وحدانیتِ خدا کا انکار کیا جا سکے۔ بحث کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے میں بحیثیت رائٹر ذاتِ خدا کی مکمل اور پائیدار تعریف کر دوں اور اس کے لیے میں قران کی سورہ اخلاص کا ترجمہ پیش کرنا چاہوں گا۔
"کہو تم (اے محبوب) کہ وہ اللہ ایک (واحد) ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اسکی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ اس کے جیسا کوئی۔ "
انسانیت نے لگ بھگ دس ہزار سالہ انسانی تاریخ (سائنس کے مطابق پانچ لاکھ سال) میں صرف دو ہی فلسفے اپنائے ہیں، ایک اقرارِ خدا کا فلسفہ اور دوسرا انکارِ خدا کا فلسفلہ۔ اب اقرار و انکار کی آگے مزید تشریحات و محرکات، شرائط و ضوابط، اشکال و نظریات اور مجردات کا تضاد ہونا ایک علیحدہ طویل مباحثہ ہے۔
دنیا کا کوئی بھی انسان جو کسی بھی طریقے یا نظریے سے خدا کے وجود کا اقرار کرتا ہو قطعی نظر اس کہ کے اس کے نظریات حقیقی اور کائناتی دین، "دینِ اسلام" ٹکراتے ہوں وہ مواحد یا توحید پرست ہی کہلائے گا، چاہے وہ توحید کی بنیادی شرط "وحدہ لاشریک" کا انکار ہی کرے اور سینکڑوں کروڑوں خداوؤں کا قائل ہی کیوں نہ ہو اور دوسری طرف جو خدا کے وجود کا انکار کرے ملحد کہلائے گا۔
جیسا کہ چند سطور اوپر یہ ذکر گزر چکا ہے کہ علمِ حقیقی رکھنے والا انسان کبھی بھی وجود خدا کا انکار نہیں کر سکتا اور اگر کوئی انسان خود کو معلم و عالم کہتا ہے، خود کو ہرفن مولا سمجھتا ہے لیکن وجودِ خدا کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ حقیقتاً کم علم اور جاہل ہی کہلائے گا کہ جو تعلیم منبع کائنات کی اصل کی پہچان نہ کروا سکے وہ تعلیم ڈاکٹر، انجینیئر، سائنسدان، استاد، مفکر، مفسر و مدبر تو پیدا کر سکتی ہے پر عالم پیدا نہیں کر سکتی۔
کیونکہ علم عقلِ سلیم کو پختہ کرنے کا ذریعہ ہے اور کم عقل کو ہماری سماجی و معاشی اصطلاح میں جاہل کہتے ہیں چنانچہ جہلاء اکثر اپنے عقائد و نظریات سے آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں سماجیات اور اخلاقیات کی قدریں کھو جائیں، جہاں انسانیت صرف مادیات کی پیروی کرے، جہاں حصولِ دولت اور تعاشیات زندگی کا مرکز ہو، اور جس معاشرے میں حیات و موت تصور بے معنی ہو وہاں کا معاشرہ ملحد ہی پیدا کرتا ہے اور انسانیت کا ملحدیت کی طرف سفر کی سب سے بڑی وجہ "ڈر" ہے۔
غم کا ڈر، عزت کا ڈر، سوسائٹی کا ڈر، موت کا ڈر اور پھر موت کے بعد نامہ اعمال کھلنے کا ڈر۔ اسی ڈر نے حقیقتاً انسان کو وجودِ خدا کے بارے میں شک میں مبتلا کر دیا کیونکہ اکثریت ملحدین کا متفقہ نظریہ یہی ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے، اور ہمیشہ رہے گی، اس کی کوئی ابتداء اور نہ کوئی انتہاء ہے، کائنات خودبخود ہے اور کسی چیز کا خودبخود ہونا ہی وجودِ خدا کے انکار کی پختہ دلیل ہے لہٰذہ خدا کا وجود مذہبیوں کی خام خیالی ہے (بقول ملحدین)۔
ملحدین چونکہ خدا کے وجود کے قائل نہیں اسی لیے انکے نزدیک کوئی روزِ جزا نہیں، کوئی حساب کتاب نہیں، بس وہ ایسے ہی خودبخود بن گئے، لیکن یہ سب ان کے دماغ کا فطور ہے اور دل کے ڈھکوسلے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ آج کل بہت سے ملحدین خدا کا کلی طور پر انکار نہیں کرتے، انکا نظریہ ہے کہ کوئی نہ کوئی اس کائنات کا بنانے والا ہے۔
لیکن اس نے کائنات کو بنا کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اب اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی کیا کرے، چنانچہ وہ خدا کے تو قائل ہیں مگر مذہبی خدا کے قائل نہیں۔ انکا ماننا ہے کہ مذہب ہی اصل بگاڑ کی وجہ ہے۔ چونکہ میرا ٹاپک لغوی و لفظی ملحدین کے انکارِ خدا کے دلالئل کا رد ہے اس لیے میں دو نمبر ملحدین کو یہاں ڈسکس کرنا مناسب نہیں سمجھتا (بندہ پچھے ملحداں چے اینی عقل کتھوں)۔
ملحدین کی بڑی تعداد وجودِ خدا کا انکار کسی خاص اصول یا منطق سے نہیں کرتی اور نہ ہی ان کے پاس اس کے لیے کوئی خاص دلائل ہیں لیکن چونکہ خدا کی ذات کا ادراک عقلِ انسانی کے لیے محال ہے اور علم و عقل کا یہی تقاضہ ہے کہ جہاں فلسفہ خدا اور اسکے ہونے یا نہ ہونے کے دلائل، یا خدا کب سے ہے، کیسا ہے وغیرہ جیسے سوالات آئیں وہاں خاموشی اختیار کرنا ہی نجات کا سبب ہے ورنہ عقلِ ناقص انسان کو وجودِ خدا کے انکار پر اکساتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے۔
تفکروا في خلق ﷲ و لا تتفکروا في ﷲ، فإنکم لن تقدروا قدرہ۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں غور و فکر کرو اور اُس کی ذات میں غور فکر مت کرو، اس لیے کہ تم اُس کی ذات کی حقیقت کو پانے کی قدرت ہرگز نہیں رکھتے۔ (کشف الخفاء، 3578)
اور منطق و شریعہ کا ایک اہم اُصول ہے کہ کل ما خطر ببالک فاللہ بخلاف ذالک یعنی ﷲ تعالیٰ کی ذات سے منسوب ہر وہ خیال جو تیرے دل میں آئے تو جان لے کہ ﷲ تعالیٰ اُس کے برخلاف ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ خدا کے وجود کو کسی بھی نظریہ کے تحت ماننا الحاد کی نفی کرنا ہے اور خدا کا قائل کسی نہ کسی مذہب کا پیروکار ہوتا ہے، لہٰذہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسانیت یا تو مذہبی ہے یا الحادی۔
اب میں ملحدین کے چند سوالات یا اعتراضات کو عقلی و منطقی طور پر رد کرنے اور ان کے بے بنیاد منگھڑک بیانیہ کو فلسفانہ طریقے سے غلط ثابت کرنے کہ حتی الامکان کوشش کرتا ہوں۔
یہ سوال ہی منطق و فلسفہ کے خلاف ہے، اور کوئی ذی شعور انسان وجودِ خدا کا انکار نہیں کرتا۔ خدا کا وجود اس لیے ماننا ضروری یے کہ خدا ہے، ہمیشہ سے ہے، قائم ہے، قادر ہے، مطلق ہے، خدا واجب الوجود یے، اس کا نہ ہونا محال ہے اور جس کا نہ ہونا محال ہو اسکا ہونا واجب ہے، ایک آن بھی ایسا نہیں جو خدا کے وجود سے خالی ہو یا کوئی ایسا لمحہ وقت، زمان و مکان، زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے، وقت کی ترتیب سے پہلے، ابد کی تخلیق سے ہہلے، عدم کے ظہور سے پہلے۔
کن فیکون کے نزول سے پہلے، جب ابتدائے وقت نہیں تھا، زمان و مکاں بلکہ لامکاں بھی نہیں تھا، تب بھی اللہ سبحان و تعالیٰٙ، جلا شانہ، وہ قادرِ مطلق اپنے تمام صفاتِ کاملہ کیساتھ زندہ و جاوید تھا، اس کے لیے کوئی ایسا لمحہ کبھی رو پذیر نہیں ہوا کہ جب وہ نہ ہو۔ وہ زمان و مکاں میں سماتا نہیں، وقت اسکو گھیر نہیں سکتا، عقل اسکو شعور میں لا نہیں سکتی، وہ خدودِ کائنات کا پابند نہیں۔ اس کے لیے کائنات کا ہونا نہ ہونا بے معنی ہے، وہ ازلی ہے، ابدی ہے، عالی ہے اولیٰ ہے، ہادی ہے مہدی ہے۔
اس کا وجود تمام وجودو کا اصل ہے، کائنات اور زمان و مکاں کی ہر ہر شے، ہر ہر زرہ، اس کے قائم رکھنے سے موجود ہے، جس کا ہونا واجب ہو اسکے نہ ہونے کا سوال ہی غیر نظریاتی غیر فلسفی، غیر عقلی ہے۔ اگر بالفرض (یہ فرض بھی نہیں کر سکتے لیکن ملحدوں کو سمجھانے کے لیے) کسی آن وجود خدا کا نہ ہونا ثابت ہوتا تو زمیں نہ ہوتی، زماں نہ ہوتا، ازل نہ ہوتا، ابد نہ ہوتا، نہیں نہ ہوتا ناں نہ ہوتا۔