حالات اور واقعات کو منصوبہ بندی کرکے، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا سوچا تو جا سکتا ہے لیکن حالات و واقعات کو مکمل نہ تو اپنے بس میں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو سو فیصد اپنی مرضی میں ڈھالا جا سکتا پے۔ عمران خان کا احتجاج سوچھ سمجھ کر پلان کیا گیا تھا اور پلاننگ کرنے والوں کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ بس اس بار عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اسلام آباد میں ہوگا اور یوں اس جم غفیر کے دباؤکی وجہ سے تیسری قوت کو میدان میں آنا پڑے گا اور صرف ایک فون کال ہی منتخب وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑ جائے گا یا پھر نواز شریف کے استعفے سے انکار کی صورت میں مظاہرین کو پولیس سے لڑوا کر چند لاشیں گرا کر جمہوری بساط کو لپیٹ دیا جائے گا اور ایک قومی حکومت بنا کر محترم عمران خان کو اقتدار سونپ دیا جائے گا۔
سوچنے میں یہ منصوبہ بے حد آسان بھی لگتا ہے اور اچھا بھی آخر کو محترم عمران خان نے اپنے من پسند میڈیا چینلز کے زریعے لفظ "انقلاب " سے اپنے کارکنوں کا ایسا عشق کروا دیا ہے کہ وہ اس کے معنی اور نتائج سے نابلد اپنے ہر مسائل کا حل اس خود ساختہ اور جعلی انقلاب میں ڈھونڈتے ہیں۔ حالانکہ خیبر پختونخواہ میں تین برسوں میں نہ تو دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوئیں اور نہ ہی کوئی قابل ذکر تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ انقلاب یا تبدیلی کے لفظ کو استعمال کرکے مسند اقتدار پر فائز ہونے کا خواب بھی دیکھنے والے کو بے حد بھلا بھی لگتا ہے اور پرفریب بھی۔ اور اگر سول ملٹری تعلقات کشیدہ ہوں تو ایسے میں یہ خواب سچا بھی نظر آتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ انقلاب چاہے وہ جعلی ہی کیوں نہ ہو اور جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کے پس پردہ مقصد پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، اس پر عملدرآمد نہ تو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہو سکتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے۔ ملکی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکومت مخالف تحریکیں چلائی جاتی ہیں تو لیڈروں اور کارکنوں کو سڑکوں پر پولیس کے ڈنڈوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ غالبا پہلی احتجاجی تحریک اور انقلاب ہے جس کے زریعے تبدیلی کے خواہش مند یہ چاہتے ہیں کہ نہ تو انہیں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے نہ کوئی قانون ان پر نافذ ہو بس انہیں فری ہینڈ ہو کہ وہ اسلام آباد کو بند کریں وزیراعظم کا استعفی لیں اور خوشی خوشی گھر چلے جائیں۔ یعنی اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ آپ کسی کا گلا دبانے کی خواہش میں اس کے گھر کے قریب پہنچ جائیں اور پھر یہ توقع بھی کریں کہ آپ جس کا گلا دبانا آئیں ہیں نہ تو وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا اور نہ ہی آپ کو روکے گا۔
دوسری جانب سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کی نواز شریف کو پسند نہ کرنے کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ سرل المیڈا کی کہانی نواز شریف کی اندرونی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں مداخلت اور سب سے بڑھ کر نواز شریف کا ایسا بیانیہ تیار کرنا جو "مقدس گائے" کے امیج کو بھی سبوتاج کرتا چلا جا رہا ہے یہ جرائم نواز شریف کو مسند اقتدار سے ہٹانے کے جواز کیلئے کافی ہیں اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اسـں مقصد کے حصول کیلئے عمران خان کا استعمال خوب اچھی طرح کر رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور عمران خان کو استعمال کرکے ایک بیانیہ نواز شریف اور جمہوریت کے خلاف بھی تیار کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی نواز شریف کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ اور ان جیسے کئی آزاد منش ججز کی سپریم کورٹ میں موجودگی کی وجہ سے سپریم کورٹ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینا شاید ہی ایسٹیبلیشمنٹ کیلئے ممکن ہو۔ اس ساری صورتحال میں عوام کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے ریستورانوں کافی شاپس اور ہوٹلوں میں ایک ہی بحث کہ اب آگے کیا ہوگا اور صورتحال کس طرف جائے گی؟ عمران خان نے اپنے سارے پتے کھیل لیئے ہیں ایسٹیبلیشمنٹ نے بھی تقریبا تمام کارڈز استعمال کر لیئے ہیں۔
نواز حکومت نے سرل المیڈا کے معاملے پر تین قربانیاں پیش کرکے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ سے سمجھوتے کی کوشش کی ہے لیکن نواز شریف اور دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ اس امر سے واقف ہیں کہ میان میں صرف ایک تلوار رہ سکتی ہے۔ ایسا وزیر اعظم جو ملکی بیانیے اور دفاعی بیانیے کو تبدیل کرکے جمہوری پلڑے میں وزن کا جھکاؤ چاہتا ہو وہ اسٹیبلیشمنٹ کو قبول نہیں اور نہ ہی اس کو زیادہ عرصہ اقتدار پر فائز دیکھا جا سکتا ہے۔ گو نواز شریف نے عمران خان کے احتجاج کو ناکام بنا کر ایسٹیبلیشمنٹ کی اس چال کو ناکام بنا دیا ہے جس کےتحت اسلام آباد میں خون خرابہ کرکے لاشیں گرا کے حکومت یا وزیر اعظم کی چھٹی کروائی جا سکتی تھی لیکن بہرحال خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔
دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا بہت بڑا حصہ کسی بھی قیمت نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی سکرین پر پراپیگینڈہ کے ذریعے اور ہیجان کی مصنوعی کیفیت پیدا کرکے عوام کو تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے ملک میں ہر سو انتشار ہے حالانکہ تحریک انصاف سندھ بلوچستان اور پنجاب سے احتجاج کیلئے عوام کو باہر نکالنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے خیبر پختونخواہ میں بھی سرکاری وسائل اور حکومت کا استعمال کرکے بھی محض چند ہزار افراد کا جتھہ ہی سڑکوں پر نکالا جا سکا۔ لیکن چونکہ ٹی وی سکرین پر ایسٹیبلیشمنٹ اور ان کے مہرے عمران خان کا قبضہ ہے اس لیئے پراپیگینڈہ کے بل پر اس مری ہوئی احتجاجی تحریک کو زندہ رکھا جا رہا ہے۔ پس پشت قوتیں حکومت کی تبدیلی کے بجائے نواز شریف اور ان کے چند رفقائے خاص کو تبدیل کرنے پر بضد ہیں۔
دوسری جانب نواز شریف استفی دینے کے موڈ میں ہرگز بھی نہیں۔ ان کی طبیعت کو جانتے ہوئے یہ کہنا ہرچند مشکل نہیں کہ وہ حکومت کا خاتمہ تو کروا لیں گے لیکن استعفی نہیں دیں گے۔ یعنی اگر عدلیہ سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ نہ آیا تو پھر جمہوریت کے خلاف ماورائے آئین اقدام کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ نواز شریف نے عمران خان کی احتجاجی تحریک کو کچل کر اور سینیٹر مشاہد اللہ کی صاحبزادی کو انفارمیشن منسٹر بنا کر پس پشت قوتوں کو یہ پیغام واضح انداز میں دے دیا ہے کہ طاقت کی اس بساط میں وہ مزید مہرے قربان نہیں کریں گے۔ دوسری جانب ماورائے آئین اقدام اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی صورت میں ایک بہت بڑی قیمت ہے جو ایسٹیبلیشمنٹ کو چکانی پڑے گی۔ بیرونی دنیا میں مزید تنہائی امداد میں کٹوتی اور پابندیاں اور خود اپنے ادارے کے امیج کو جھٹکا۔
سول سوسائٹی اور جمہور پسندوں کی مزاحمت۔ یہ وہ قیمت ہے جو شاید ہی ایسٹیبلیشمنٹ ادا کرنے پائے۔ جب کسی بساط پر دونوں فریقین کو ایک جیسے نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر پرویز رشید جیسے مخلص کارکنوں کی بلی بھی دی جا سکتی ہے اور عمران خان جیسے مہروں کو بھی باآسانی قربان کیا جا سکتا ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی یا راحیل شریف کو مدت ملازمت میں توسیع دینے سے بھی حکومت ایک اچھا خاصا وقت خرید سکتی ہے اور نومبر یا دسمبر کے بعد کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ انتخابات سے صرف ایک سال قبل نواز شریف کا تخت الٹ کر پھر سے انہیں سیاسی شہید کا درجہ دیا جائے۔
ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا آسان ہے کہ اب آگے کیا ہوگا کا جواب یوں ہے کہ معاملات ایسے ہی چلیں گے اور نواز شریف کے خلاف 2018 کے انتخابات تک ایک ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جائے گی جس کے تحت وہ غدار بدعنوان اور ظالم نظر آئیں۔ دوسری جانب یہی بیانیہ نواز شریف کے پنجابی ووٹ بنک کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گا کیونکہ پنجاب میں نواز شریف کو اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ اور ہمدردی کا ووٹ زیادہ پڑتا ہے۔ رہی بات جناب عمران خان کی تو اس لڑائی میں نہ تو پہلے ان کی کوئی حیثیت تھی اور نہ آئندہ ہوگی۔