سانحہ کوئٹہ میں 61 قیمتی جانیں گنوانے کے بعد ایک بار پھر ہم نوحہ خوانی اور ماتم کی دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ الیکڑانک میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ہر شخص خود کو دفاعی ماہر سمجھ کر فوج اور حکومت پر طنز و تنقید کے نشتر برساتا دکھائی دیتا ہے۔ یقینا کوئٹہ میں برپا ہونے والا یہ بدترین اور مکروہ واقعہ ہمارے دفاعی اور سول اداروں پر سوال ضرور کھڑے کرتا ہے لیکن تنقید کرنے کا بھی کوئی مناسب وقت ہوتا ہے یہاں اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے جڑے حضرات سانحہ کے دوران ہی توپوں کا رخ فوج یا سویلین حکومت کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر تنقیدی تیر چلانا یا ٹی وی سکرینوں پر واویلا اور دہائیاں دینا اور بات ہے لیکن میدان میں دہشت گردوں کے آگے سینہ سپر ہو کر گولیوں کا سامنا کرنا بالکل مختلف بات۔ غالبا ہم لوگ اب لاشعوری طور پر ایسے سانحات کا انتظار کرنے کے عادی ہو چکے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھا سکیں۔
کوئٹہ میں ہونے والا یہ سانحہ افسوس کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی نظر ہوگیا۔ محترم عمران خان نے اخلاقی حدود کی ساری حدود پھلانگنے کے بعد سانحہ بلوچستان کو ان کے دھرنے کو ناکام کرنے کی کوشش قرار دے ڈالا اور موصوف نے اپنے اندھے عقیدت مندوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ سانحہ اے پی ایس سے لیکر سانحہ کوئٹہ اور کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ محض ان کے احتجاج کے سلسلوں کو ناکام بنانے کیلئے کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت نواز شریف کی مدد کو آ جاتا ہے۔ یعنی بھارت اور دیگر قوتیں پارلیمنٹ میں ایک ایسی جماعت سے خائف ہیں جس کے پاس کل نشستوں کا دس فیصد بھی نہیں۔ اور جسے 2013 کے بعد تمام انتخابات میں عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ ایک ایسا وقت جس میں ساری قوم کو یک زباں ہو کر سانحے کی مزمت کرتے ہوئے اس سانحے کے محرکات پر سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی جاری ہے۔ دوسری جانب اس سانحے پر وزیر دفاع خواجہ آصف کی ٹویٹ جو کہ تحریک انصاف اور عمران کے دھرنے کو بھارت اور افغانستان کا اقدام قرار دیتی نظر آئی وہ بھی بے حد شرمناک تھی۔ اس پوائنٹ سکورنگ سے ایک اندازہ تو ہوا کہ ہمارے سیاستدان خواہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ان کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قدرو قیمت نہیں اور محض سیاسی مقاصد کا حصول اول و آخر مقصد ہے۔
ہم جس خطے میں بستے ہیں یہاں اگر دشمن کے گھر بھی ماتم ہو جائے تو تمام رنجشیں بھلا کر اس سے اظہار افسوس کیا جاتا ہے اور سوگ کے ایام تک اس دشمنی کو سائڈ پر رکھ دیا جاتا ہے لیکن افسوس ہماری اشرافیہ ان سانحات کو بھی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں آتی۔ عام آدمی بھی اس موقع پر فوج، حکمران جماعت پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتا ہے یہ جانے بنا کہ ماضی میں بوئے گئے یہ شدت پسندی کے بیج راتوں رات معاشرے سے ختم نہیں کیئے جا سکتے۔ حافظ سعید یا مسعود اظہر کو مارنے سے نہ تو دہشت گردی ختم پو سکتی ہے اور نہ ہی کم۔ دہشت گردی کا براہ راست تعلق ہمارے عقائد اور قومی نظریات سے ہے جنہیں تبدیل کرنا تو دور کی بات ان پر بات کرنا بھی توہین یا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے ہم ماننے کو تیار نہیں ہوتے لیکن معاشرے سے راتوں رات دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ شدت پسندی کا تعلق براہ راست ہمارے مذہبی اور دفاعی بیانیے سے ہے اور دنیا اب ہمارے ان دونوں بیانیوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہمارا مذہبی بیانیہ جو مسلمانوں کی دنیا پر بزور تلوار تن تنہا حکومت یا جہاد سے لیکر تمام غیر مذہبی اقوام عالم سے نفرت پر مبنی ہے اس کے ہوتے ہوئے طالبان یا لشکر جھنگوی جیسی سینکڑوں تنظیمیں پیدا ہوتی ہی رہیں گی۔ اسی طرح ریاستی دفاعی بیانیہ جو ہمسایوں کے وسائل پر قبضہ کرنے سے لیکر قومیت کی نرگسیت پسندی کے گرد گھومتا ہے اس کی موجودگی میں لشکر طیبہ یا جیش محمد جیسی سینکڑوں تنظیمیں پروان چڑھتی ہی رہیں گی۔
مذہبی بیانیہ چونکہ براہ راست عام عوام کے عقائد پر بھی مشتمل ہے اس لیئے اسے تبدیل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہم خود ہیں۔ ریاستی دفاعی بیانیہ چونکہ اشرافیہ کے مفاد میں ہے اس لیئے اس کے ناکام ہونے کے باوجود تبدیل کیئے جانا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہم میں سے کتنے افراد اپنے بچوں کو دنیا کے تمام مذاہب کی عزت کرنے سے لیکر دنیا کی تمام اقوام کی تکریم کرنا سکھاتے ہیں۔ بھارت کی ایسی کی تیسی امریکہ کی سازشوں کی دہائیاں یہودی لابی کی ہم پر ہمہ وقت نظریں یہ بیانیہ تو ہم خود اپنے بچوں کے اذہان میں منتقل کرتے ہیں پھر اس کے بعد توقع کرتے ہیں کہ ہماری نسلیں امن پسند بھی ہوں گی اور معاشرہ شدت پسندی سے پاک بھی۔ یہ دہرا معیار شدت پسندی پھیلانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور شدت پسندی کی جانب مائل ذہنوں کو بہتر حوروں کا لالچ دیکر دہشت گردی پر مائل کرنا کسی بھی تنظیم کیلئے انتہائی آسان ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ متعصبانہ سوچ اور شدت پسند نظریات کو ختم کرکے جیتی جاتی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے نظریات و عقائد میں حافظ سعید احمد لدھیانوی یا ملا فضل الہ سے کم شدت پسند نہیں ہیں۔ اس لیئے ہمیں دنیا بھر میں ایک شدت پسند قوم کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ ہم تو ایک دوسرے کے فرقوں کو نہیں بخشتے تو بیرونی دنیا یا غیر مذاہب تو ایک بالکل دور کی بات ہے۔۔ دوسری جانب ہم محب وطنی کے نام پر بھی آنے والی نسلوں میں نرگسیت پسندی اور خود ترسی کی سوچ منتقل کرتے ہیں۔ نتیجتا ہمارے ہیروز وہ ہوتے ہیں جو آزادی کی جنگوں کا ایندھن بنتے ہوئے بھری جوانی میں ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
سٹیفن ہاکنگ مادام کیوری بل گیٹس وغیرہ ہمارے ہیروز اس لیئے نہیں بن پاتے کہ ایک تو وہ مسلمان نہیں اور دوسرا ان کا چنا ہوا رستہ سخت محنت اور علم و تحقیق پر مبنی ہوتا ہے جب کہ ہمارے بچوں کو ہم عقائد اور نظریات کی صورت میں بتا دیتے ہیں کہ یہ تمام لوگ اور ان کی کامیابیاں وقتی ہیں ہمیں تو آخرت میں بہتر حوریں اور جنت ملنی ہے۔ اب جب بچوں کو نہ تو وسائل مہیا کیئے جائیں اور نہ علم و تحقیق پر مبنی سوچ تو پھر ان کے ہیروز بھی وار لارڈز ہوتے ہیں ایسے میں غریب گھرانوں کے بچوں کو ان وار لارڈز ہیروز کے تصوراتی دنیا میں گھسیٹنا از حد آسان ہو جاتا ہے۔ بھارت میں دھماکوں میں کوئی مرے یا بیروت میں یا پھر فلسطین میں مرنے والے ہماری طرح کے عام انسان ہوتے ہیں جس دن ہم نے اپنے بچوں کو یہ بنیادی نکتہ سمجھا دیا کہ انسانی جان سے بڑھ کر قیمتی چیز دنیا میں کوئی نہیں اور اصل ہیروز انسانی جان لینے والے نہیں بلکہ انسانی جان بچانے والے ہوتے ہیں اس دن ہمارے معاشرے میں خود بخود حافظ سعید ملک اسحاق یا مولوی فضل جیسے لوگ پیدا ہونے بند ہو جائیں گے اور ہمیں کوئٹہ جیسے لاتعداد سانحات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن چونکہ ہم نے اپنے اپنے عقائد نظریات اور سیاسی وابستگیوں کی قید سے باہر نہیں آنا اور نہ ہی حب الوطنی کے نام پر نرگسیت سے اس لیئے آئیں کوئٹہ کے سانحے کے بعد بکھری ہوئی لاشوں پر نوحہ خوانی اور ماتم کرکے اپنے آپ کو فریب میں مبتلا رکھنے کا عمل جاری رکھیں۔