1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. عقیدتوں کے کاروبار کی ہلکی سی جھلک‎

عقیدتوں کے کاروبار کی ہلکی سی جھلک‎

سرگودھا میں ایک پیر کے ہاتھوں 20 مریدین کے بے رحمانہ قتل کی خبر نے ملک بھر میں چند لمحات کیلئے ایک سکتے کی کیفیت پیدا کر دی۔ ان 20 افراد کو نشہ دے کر انتہائی بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے مطابق مجرم وحید جو کہ پیر تھا ایک ذہنی مریض لگتا ہے۔ جس نے محض پاگل پن اور پیرانویا میں ان مریدین کو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ علاقے کے لوگوں نے میڈیا اور تفتیشی ٹیموں کو یہ بھی بتایا کہ یہ پیر اکثر مریدین پر تشدد کرتا رہتا تھا۔ اکثر یہ پیر روحانی علاج یا مختلف جسمانی بیماریوں کے علاج کیلئے مریدین کو ننگا کرکے ان پر لاٹھیاں برساتا یا ان کے جسمانی اعضا کو جلاتا۔ آج کے اس جدید دور میں اس طرح کے وحشیانہ اور جاہلانہ اقدامات کی جڑ جہالت اور اندھی عقیدت کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔

وطن عزیز میں درگاہوں کے نام پر پیروں نے جو ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا ہے سرگودھا واقعہ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ آپ کسی بھی پیر کے مزار یا درگاہ پر چلے جائیں آپ کو چرس اور بھنگ کے نشے میں دھت مریدین اپنی محرومیوں اور تکالیف کی گٹھڑی کا بوجھ اٹھائے ان پیروں کے قدموں پر جھکے ملیں گے۔ وطن بھر میں یہ پیر حضرات درگاہوں آستانوں کے نام پر اربوں روپیہ سادہ لوح ان پڑھ افراد یا پھر پڑھے لکھے عقیدتوں کے اندھے افراد سے بٹورتے پائے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں اکثر بے اولاد خواتین ان پیروں سے اولاد کی دعا کروانے جاتی ہیں اور جنسی ہوس کا شکار بننے کے بعد واپس آتی ہیں۔

مرگی یا دیگر دماغی اور نفسیاتی مسائل کا شکار خواتین و حضرات کو یہ پیر بابے جنات کے زیر سایہ بتا کر رقم بٹورنے کے علاوہ ان افراد پر وحشیانہ قسم کا تشدد کرتے ہیں یہاں تک کہ اکثر ایسے مریدین کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ مـشہور آستانوں اور درگاہوں پر بیٹھے پیر پیسہ کمانے کے علاوہ علاقہ میں سیاسی اثرو رسوخ بنانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عقیدت کے اس اندھے اورگھناؤنے کاروبار میں اکثر یہ پیر حضرات علاقے کی سیاسی اور بااثر شخصیات کو ساتھ ملا کر ایک مربوط اور مضبوط نیٹ ورک تیار کرتے ہیں اور پیسہ کمانے سے لیکر لوگوں کے دماغوں پر راج کرنے کی طاقت کے نشے سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

بدقسمتی سے معاشرے میں چونکہ عقیدت مندی کو سماجی سطح پر ایک خوبی تصور کیا جاتا ہے اور کسی بھی پیر یا مولوی کا عقیدت مند ہونا آپ کو پارسائی اور تقوے کی سند دلوا دیتا ہے اس لیئے پڑھے لکھے افراد بھی پیری فقیری کے اس دھندے کا باآسانی شکار بن جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی کیفیت مستقل نہیں ہوتی۔ خوشی غم دکھ تکلیف اچھے یا برے حالات یہ سب وقتی ہوتے ہیں اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

عقیدتوں کا کاروبار کرنے والے پیر بابے اور دیگر مذہبی افراد انسانی زندگی کے اس اصول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی دکھ تکالیف مصائب اور خوشی کو عقیدت کے اندھے پن سے اپنی عطاکردہ شے قرار دیکر انسانوں کا استحصال جاری رکھتے ہیں۔ وطن عزیز کا کوئی بھی پیر یا مبلغ آپ کو ہاتھوں سے کوئی کام کرتا دکھائی نہیں دے گا پورا دن اپنی شخصی انا کے نشے یا چرس بھنگ کے نشے میں دھت مریدین پر اپنی شخصیت مسلط کرکے مریدین کو شخصیت فنا کرنے کا درس دینے والے یہ دوغلے لوگ وطن عزیز کے چپے چپے میں مریدین اور عقیدت مندوں کے پیسوں سے لاکھوں کروڑوں اور اربوں روپیہ بناتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی مالی طور پر مضبوط کر دیتے ہیں۔

دوسری جانب مریدین اور عقیدت مند زیادہ تر غریب ہی رہتے ہیں اور وقت پیسے یا جان کے زیاں کے بعد بھی اس گھن چکر سے باہر نکلنے کا سوچتے بھی نہیں۔ پیری مریدی کا یہ دھندا ڈھونگ پر چلتا ہے جہاں پیر صاحب ظاہری طور پر ایک انتہائی نفیس بے ضرر اور سادہ لوح انسان کے طور پر پیش کیئے جاتے ہیں جن کو اکثر عبادات یا چلوں یا پھر مرشد کے تحفے کے طور پر "روحانی قوتیں" عطا ہو جاتی ہیں اور اکثر ان کا رابطہ ڈائیریکٹ رب کی زات یا گزرے زمانے کی مقدس ہستیوں کے ساتھ ہو جاتا پے۔

عقیدت کے اندھے لوگ بنا کسی چوں چرا کے اس بات پر ایمان بھی لے آتے ہیں اور پیر صاحب کی ہٹی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حالانکہ ایک عام فہم آدمی بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ انسانوں کو بناتے وقت نہ تو قدرت نے ان میں کوئی فرق رکھا اور نہ ہی کسی بھی مذہب نے یہ کہا کہ خدا کے پیغام کو سمجھنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں اس لیئے پیر فقیر اور مولوی اس کے ٹھیکیدار ہوں گے۔

دنیا کا ہر مذہب جو آفاقی ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ کیونکر اپنا پیغام اسقدر مشکل بنائے گا جسے سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہو سکتی۔ اس گھناؤنے کاروبار میں جہاں یہ پیر حضرات مجرم ہیں وہیں عقیدت مند اور مریدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ عقیدت کی اندھی چادر اوڑھے یہ مریدین اور عقیدت مند اپنے جن مسائل کا حل پیروں بابوں یا مولویوں کے پاس ڈھونڈتے ہیں اگر ان مسائل کو خود حقیقت پسندی، عقل و دانش کی کسوٹی سے حل کرنے کی کوشش کریں تو شاید ان گنت حضرات مسائل کی دلدل سے نکل بھی سکتے ہیں اور عقیدتوں کے اس کاروبار کو بند بھی کر سکتے ہیں۔

جس بچے یا بچی پر جن یا آسیب کا سایہ بتایا جاتا ہے اسے اگر ایک ماہر نفسیات کے پاس لے جایا جائے تو نہ صرف اس کے مرض کی تشخیص بروقت ہو سکتی ہے بلکہ وہ بچہ یا بچی ایک صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ گردے دل یا جگر کے امراض کے علاج کیلئے تعویز یا سٹیورایڈ ملا پانی ان پیروں سے حاصل کرکے وقتی آرام کی جگہ اگر ایک قابل ڈاکٹر کو دکھایا جائے تو ان امراض کا بروقت علاج کروا کر زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ بے اولادی کیلئے پیروں کے پاس دربدر بھٹکنے کے بجائے کسی قابل گاینا کالوجسٹ یا ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تو یہ مسلہ بھی آرام سے حل ہو سکتاہے۔

ناکامیوں حوادث اور تکالیف سے گھبرا کر پیروں فقیروں سے تعویز گنڈے لینے اور دم درود کروانے کے بجائے اگر ہمت صبر اور استقامت سے ان کا سامنا کرتے ہوئے اپنی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے تو ان مصائب اور تکالیف سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ شخصی خلا کو پر کرنے یا پارسائی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کیلئے پیروں فقیروں کے در پر جانےسے ہزار درجے بہتر پے کہ اپنا وقت اور پیسہ ضرورت مندوں اور معاشرے کے فلاح کیلئے استعمال کرکے انسانیت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جائے بلکہ انسانوں سے کسی بھی پارسائی یاتقوے کے سرٹیفیکیٹ کے بجائے رب کریم کے سرٹیفیکیٹ کا انتظار کیا جائے۔

غربت اور جہالت انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیتی ہے لیکن ایسے انسان جو تعلیم کی نعمت سے مستفید ہیں اور معاشی طور پر قدرے مستحکم ہیں انہیں کم سے کم عقیدتوں کے اندھے پن کاشکار نہیں ہونا چاھیے۔ عقیدتوں کے اس اندھے سے کاروبار کی یہ ہلکی سی جھلک ہے جو سرگودھا میں دکھائی دی۔ اس انڈسٹری کا اصل چہرہ نہ صرف بھیانک بھی ہے بلکہ کروڑہا افراد کو عقیدتوں کی ڈھال تلے یرغمال بنانے کا طریقہ بھی۔ عقیدتوں کے اس کاروبار کا حصہ بننا ترک کیجئے اشرف المخلوقات کا مطلب عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا ہوتا ہے نا کہ جانوروں کی مانند ان کاروباری پیر بابوں یا مذہبی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں یرغمال بننا۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔