بالآخر لیاری گینگ وار کے ایک اور بڑے کردار بابا لاڈلا کا خاتمہ ہوا۔ رینجرز نے ایک مقابلے میں بابا لاڈلا اور اس کے دو ساتھیوں کو ختم کر دیا۔ بابا لاڈلا کراچی میں ایک متوازن سرکار چلاتا تھا اور جرائم کی دنیا میں عزیر بلوچ کی مانند بے تاج بادشاہ تھا۔ ایک مزدور کےگھر پیدا ہونے والا یہ شخص جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ کیسے بنا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ 1977 میں لیاری میں پیداہونے والا نور محمد ایک پولیس آفیسر بننا چاہتا تھا۔ اس خواہش کے حصول کیلئے اس ـنے بہت کشٹ اٹھایا لیکن پولیس میں نوکری نہ لے پایا۔ لیاری کے دیگر بچوں اور نوجوانوں کی مانند غربت سے تنگ آ کر نور محمد نے منشیات بیچنا شروع کر دیں اور یوں اس کا تعلق حاجی فضلو اور رحمان ڈکیت سے جڑ گیا۔
وقت گزرتا گیا اور نور محمد بابا لاڈلا کے نام سے مشہور ہوتا چلا گیا۔ حاجی فضلو اور رحمان ڈکیت میں آپس میں لڑائی کے بعد بابا لاڈلہ رحمان ڈکیت کا رائٹ ہینڈ بن گیا۔ 2009 میں رحمان ڈکیت کے قتل کے بعد بابا لاڈلہ کراچی کی انڈر ورلڈ کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ بابا لاڈلا نے جرائم کی دنیا میں سفاکیت اور دہشت کی نئی تاریخ رقم کی۔ اکثر وہ اپنے مخالفین کو قتل کر دینے کے بعد ان کے سر کاٹ کر ان کٹے ہوئے سروں سے فٹبال کھیلتا تھا۔ ارشد پپو اور اس کے قریبی ساتھیوں کو بابا لاڈلا نے عزیر بلوچ کے ساتھ مل کر بے رحمی سے قتل کیا۔
عزیر بلوچ کی وجہ سے بابا لاڈلہ کو پیپلز پارٹی کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ لیکن 2013 میں عزیر بلوچ اور بابا لاڈلا کے درمیان جھگڑا ہوا اور دونوں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ عزیر بلوچ سمجھدار نکلا اور اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سرنڈر کر دیا۔ اور آج وہ اطمینان سے سلاخوں کے پیچھے بیٹھا زندہ ہے۔ دوسری جانب بابا لاڈلا نے سیاسی آقاؤں کے احکام بجا لانے سے انکار کر دیا۔ بلکہ الٹا ان پر چڑھ دوڑا۔ پیپلز پارٹی کے ممبر اسبلی جاوید ناگورا کے بھائی اور رفقا کو مارنے کے بعد بابا لاڈلا کا انجام یقینا طے چکا ہو تھا۔ بابا لاڈلا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاـسکتا ہے کہ مرحوم ایس ایس پی چوہدری اسلم جیسا دلیر پولیس افسر بھی اس کے علاقے میں جاتے یا اس پرہاتھ ڈالتے ڈرتا تھا۔
کراچی میں رینجرز کے آپریشن شروع ہونے کے بعد بابا لاڈلا ایران فرار ہوگیا تھا اور کچھ عرصے قبل ہی واپس آیا تھا۔ بابا لاڈلا کو مار کر کم سے کم رینجرز نے لیاری گینگ وار کے مکمل خاتمے کی بنیاد ضرور رکھ دی ہے اور رینجرز کو اس بات کا پورا کریڈٹ جاتا ہے۔ لیکن بابا لاڈلا جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ اور ہزاروں لاکھوں غریب نوجوانوں کا آئیڈیل کیونکر بنا یہ ضروری سوال ہے اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بابا لاڈلا کی موت سے لیاری یا کراچی کی جرائم کی دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا؟ جس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ کیونکہ جب تک سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو ورغلا کر اپنے اپنے مالی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتی رہیں گی تب تک بابا لاڈلا جیسے مجرم پیدا ہوتے رہیں گے۔
بابا لاڈلا کی پشت پر کونسی سیاسی جماعت اور مرکزی رہنما تھے غالبا لیاری اور کراچی کا بچہ بچہ یہ بات جانتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ سیاسی لبادے کی آڑھ میں چھپے بیٹھے ہیں اس لیئے نہ تو قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان بھیڑیوں کا ان کاؤنٹر کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ بابا لاڈلا سے زیادہ بڑے مجرم وہ سیاسی طاقتور افراد ہیں جو بابا لاڈلا جیسے مجرم پیدا کرتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد انہیں مروا دیتے ہیں۔ اور شاید سب سے بڑا مجرم یہ نظام ہے جو ایک مـزدور کے بیٹے کو بابا لاڈلا جیسا مجرم بناتا ہے اور پھر اسے ایک ان کاؤنٹر میں مار دیتا ہے لیکن اس کی پشت پر موجود بااثر افراد کو چھونے کی ہمت بھی نہیں جٹا پاتا۔
لیاری برس ہا برس سے پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ ہے اور اس علاقے میں پیدا ہونے والا ہر بڑا مجرم اس جماعت کی پشت پناہی کی بنیاد پر انڈر ورلڈ میں راج کرتا ہے۔ بابا لاڈلا نے عزیر بلوچ کی مانند مہرہ بننے سے انکار کیا اور جس دن اس نے پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے بھائی کو مارا اس کے ڈیتھ وارنٹ سائن ہو گئے تھے۔ حالانکہ بابا لاڈلا نے قریب 74 کے قریب قتل کیئے تھے لیکن ممبر اسمبلی کے بھائی کو چھوڑ کر باقی سب کا خون پانی کی مانند سستا بھی تھا اور بے وقعت بھی۔
بہت جلد عزیر بلوچ بھی شاید اسی انجام سے دوچار ہو جائے گا کہ پابند سلاسل رہ کر اس کی زبان سے اگر پیپلز پارٹی کے بادشاہ کا نام نکل گیا تو پیپلز پارٹی کے بادشاہ کو پہلے سے ناراض دفاعی اسٹیبلیشمنٹ کو منانا ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے اس سارے سیاسی کھیل اور طاقت کی لڑائی میں مرے گا صرف مزدور اور غریب کا بیٹا۔ وہ مکروہ چہرے جو ایوانوں میں بیٹھے ان افراد کو پیدا کرتے ہیں کل کو بابا لاڈلا اور عزیر بلوچ جیسے کئی اور مجرم تیار کریں گے اور پھر ضرورت پڑنے پر انہیں بھی مروا دیں گے۔
جرائم کی دنیا میں مجرم پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن جو مکروہ ہاتھ ان مجرموں کو پیدا کرتے ہیں جب تک ان ہاتھوں کو کاٹا نہیں جائے گا یہ مجرم پیدا ہوتے رہیں گے۔ ایک مزدور کے گھر جنم لینے والا مجرم اگر ان کاونٹر میں مر سکتا ہے تو ایک صنعتکار وڈیرے سیاستدان یا سرکاری افسرکے گھر پیدا پونے والے مجرم کا ان کاؤنٹر کیوں نہیں ہو سکتا؟ اور یہ سلسلہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے آپ وطن عزیز کے کسی شہر گاؤں گلی محلے میں چلے جائیں آپ کو ان گنت بابا لاڈلا جیسے مجرم مل جائیں گے کہیں انڈرورلڈ کے نام پر کہیں قبضہ مافیا کہہیں شوٹر کہیں بھتہ خور کہیں بدمعاش کہیں جہاد اور مذہب کے نام پر۔ یہ تمام مجرم زیادہ تر غربت اور محرومی کی چکی میں پسنے کے بعد سیاستدانوں اور دیگر بااثر افراد کے ہاتھوں کھلونا بنتے ہیں اور اپنی مدت پورا ہونے پر تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔
غربت افلاس اور ناانصافی ان کو مختلف نوعیت کے جرائم میں جھونکتی ہے اور پھر بااثر افراد سیاست مذہب اور دیگر لبادے اوڑھ کر ان کو جی بھر کر استعمال کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم سب بے حسوں کی مانند اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں مذہبی یا نظریاتی وابستگیوں کے تابع خاموش رہ کر بابا لاڈلا جیسے مجرم پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بابا لاڈلا نے جو بویا وہی کاٹا اور ایک عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ لیکن وطن کے گلی کوچوں میں پھیلے ایسے کرداروں کو پنپ پانے سے روکنا تبھی ممکن ہے جب ایک ان کاؤنٹر ان سیاسی مذہبی اور دیگر بااثر افراد کا بھی کیا جائے جو ایسے مجرم پیدا کرتے ہیں بصورت دیگر کچھ عرصے بعد ہم پھر کسی بابا لاڈلا کے مارے جانے کی خبر دیکھتے یا سنتے ہمیشہ کی طرح تبصرے کرتے پائیں جائیں گے اور یہ نظام اسی طرح چند افراد کے گھر کج باندی بن کر رینگتا رہے گا۔