شاہ رخ خان کی نئی فلم "رئیس" کو پاکستان میں نمائش سے روک دیا گیا۔ بظاہر جو وجوہات اس فلم کی پابندی کا باعث بنی ہیں ان کے مطابق اس فلم میں مسلمانوں کو شدت پسند دکھایا گیا ہے۔ فلم رئیس 1980 کی دہائی کے ایک شراب فروخت کرنے والے ڈان عبدل لطیف کی اصلی زندگی کے کچھ واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ فلم میں شاہ رخ خان نے مرکزی کردار نبھایا ہے جبکہ پاکستانی اداکارہ ماہیرہ خان اور بھارتی نامور اداکار نواز الدین صدیقی بھی فلم میں جلوہ گر ہیں۔
شاہ رخ خان نے ایک طویل مدت بعد نہ صرف ایک اچھی فلم شائقین کو دیکھنے کو دی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ اس فلم میں اپنی عمر کے مطابق کردار بھی نبھایا ہے۔ اس فلم میں ولن کا کردار دراصل داؤد ابراہیم کے گرد گھومتا ہے اور فلم میں دیگر ناموں کی طرح داؤد ابراہیم کے نام کو بھی تبدیل کرکے موسی رکھا گیا ہے۔ غالبا پاکستان میں فلم کو نمائش کی اجازت نہ مل پانے کے پیچھے اصل وجہ بھی یہی ہے۔
داؤد ابراہیم 90 کی دہائی میں ممبئی دھماکوں کا مرکزی مجرم ہے اور فلم میں ان دھماکوں کا زکر بھی ہے۔ فلم میں داؤد ابراہیم دھوکے سے لطیف یعنی رئیس سے بارود اور دھماکہ خیز مواد سمگل کروا کر ممبئی میں پہنچاتا ہے اور رئیس کو جب پتا چلتا ہے تو وہ موسی کو مار دیتا ہے۔ فلم کے آخر میں شاہ رخ کا ڈائیلاگ بھی کمال کا ہے جب موسی یعنی داؤد ابراہیم اس کو کہتا ہے کہ مبارک ہو تمہیں جنت مل گئی تو شاہ رخ جواب دیتا ہے کہ میں دھندہ کرتا ہوں لیکن دھرم کا دھندہ نہیں کرتا۔ اور شاید ہمارے ارباب اختیار کو یہ بہت برا لگا کہ ہمارے ہاں تو سب سے بڑا دھندہ ہی یہی ہے۔ تعویز بیچنے والوں سے لیکر جادو ٹوننے کے نام پر دھندہ کبھی جہاد کبھی فرقہ واریت کے نام پر دھندہ۔
دوسری جانب داؤد ابراہیم کو کیوں اس فلم میں دکھایا گیا شاید یہ وجہ اصل اور اہم ترین تھی۔ اب ستم یہ ہے کہ ایک عام فلم بین نا تو اس فلم کے پیچھے اصل کہانی سے آشنا تھا اور اسے نہ ہی یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ داؤد ابراہیم نے کیا کیا۔ لیکن اس فلم کو نمائش کی اجازت نہ دیکر خود سنسر بورڈ نے یہ موقع مہیا کیا کہ اس فلم کے پیچھے موجود لطیف کی اصل کہانی اور داؤد ابراہیم اور لطیف کی دوستی اور پھر داؤد کا لطیف کو دھوکہ دے کر بم دھماکے کروانا یہ تمام کہانی ہر عام آدمی تک پہنچ جائے۔
خیر فلم رئیس میں شاہ رخ خان اور نواز الدین صدیقی کی جاندار ایکٹنگ ماہیرہ خان کی خوبصورت اداکاری اور ڈانس اور فلم میں خوبصورت گانوں کی وجہ سے نہ صرف یہ فلم دیکھنے والوں کا دل موہ لیتی ہے۔ بلکہ ٹکٹ پر خرچ کی گئی رقم کا حق بھی ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک رئیس فلم نے محض گیارہ دنوں کے اندر پوری دنیا سے 250 کڑوڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کر لیا ہے۔ اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ مل پانا نہ صرف فلم بینوں کے ساتھ ایک زیادتی ہے بلکہ ہمارے کھوکھلے رویوں کی جانب ایک اور نشاندہی بھی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس فلم میں مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور مسلمانوں کو مجرم اور دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس لیئے اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں مل سکتی۔ فلم سنسر بورڈ میں جن حضرات نے بیٹھ کر بھی یہ فیصلہ کیا ہے یقینا نہ تو وہ داؤد ابراہیم کو جانتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے گجرات کے شراب فروخت "لطیف " کا نام کبھی سنا ہوگا۔ رہی بات فرقے کی تو فلم میں شاہ رخ خان کو شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والا ایک فرد دکھایا گیا ہے اور فلم میں کہیں بھی کسی بھی زاویے سے شیعہ فرقے کی دل آزاری کا سامان موجود نہیں۔
کمال منافقت یہ ہے کہ شعیب منصور کی بنائی گئی فلم "بول" جس میں کہ شیعہ فرقے کو بازار حسن لاہور میں جسموں کی خرید و فروخت کرتے دکھایا گیا اور متاع جیسے فعل کو بھی بھونڈے انداز میں دکھایا گیا نہ صرف اس فلم کو نمائش کی آزادی بھی دی گئی۔ بلکہ یہ تصور بھی کر لیا گیا کہ اس فلم سے شیعہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی دل آزادری بھی نہیں ہوگی۔ کم سے کم یا تو اصول اور قانون تمام فلموں پر مساوی لاگو ہونے چائیں۔ یا پھر مہربانی فرما کر فرقہ واریت اور مذہبی تفریق کی عینک کو آرٹ اور فلموں کو بناتے اور نمائش کی اجازت دیتے وقت استعمال کرنے سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چائیے۔
رئیس فلم میں کسی بھی انداز سے نہ تو مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں برا اور دہشتـگرد بتایا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی اصل واقعات اور کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں ہندووں کو بھی جرائم پیشہ اور شراب بیچنے والا ڈان دکھایا گیا ہے۔ تو کیا اس سے ہندووں کی بھی دل آزادری ہوگئی؟ جرائم کرنے والے ہر قسم کے فرقے، مذہب یا قومیت سے تعلق رکھتے ہیں تو کیا پھر جرائم پر مبنی کہانیوں پر فلمیں بنانا ہی بند کر دی جائیں؟ کہ ہر فرقے مذہب یا قومیت کا ان سے دل دکھے گا۔ 1993 کے ممبئی دھماکے ایک حقیقت ہیں اور داؤد ابراہیم کا ان میں ہاتھ شامل ہونا بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔
ہمارے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ خیر نہ تو فلم رئیس کی کہانی دہشت گردی کے گرد گھومتی ہے اور نہ ہی مذہب کے گرد۔ یہ فلم ایک سیدھی سیدھی کرائم سٹوری ہے اور ہمارے سنسر بورڈ والوں نے کمال مہارت سے اس فلم کو پابندی کی زد میں لا کر نہ صرف اپنے نالائق ہونے اور آرٹ کو سمجھ نہ پانے اور فلموں سے نابلد ہونے کا ثبوت دیا ہے بلکہ فلم کو بھارت میں اور بھی مقبول بنا دیا ہے۔ اس فلم پر پابندی لگانے کا جو اصل جواز تھا وہ داؤد ابراہیم تھا اور اب بھارتی میڈیا اس مدعے کو لے کر خوب پھتیاں بھی کسے گا۔
خیر رئیس فلم کا ہی ایک ڈائیلاگ تھا کہ کوئی بھی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ غالبا یہ ڈائیلاگ فلم بینوں پر بھی موزوں بیٹھتا ہے کہ آج کے جدید دور میں نہ تو فلم بین فلم دیکھنے کیلیئے محض سینما کے محتاج ہیں اور نہ ہی سنسر بورڈ میں بیٹھے بابوووں کے اجازت نامے کے۔ شوق رکھنے والے افراد فتووں کی پرواہ کیئے بنا فلم دیکھ کر ہی چھوڑتے ہیں۔ ویسے بھی وطن عزیز میں انٹرنیٹ سے فلم ڈاؤن لوڈ کرکے غالبا پاکستان کے گلی کوچوں تک پہنچائی جا چکی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا فلم بین ہوگا جس نے کہ رئیس نہ دیکھی ہو۔ یہ پابندی صرف اور صرف سینما مالکان کو مالی نقصان دینے اور ہمارے سرکاری منشیووں کی چھوٹی سوچ دنیا میں آشکار کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہ کرنے پائے گی۔