کہتے ہیں کہ بنیادیں مضبوط ہوں تو عمارتوں کو بڑے سے بڑا طوفان بھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔ لیکن اگر بنیادیں کھوکھلی ہوں تو محض ہوائیں بھی کمزور بنیاد والی عمارتوں کو زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ ہمارے قائم کردہ ریاستی و مذہبی بیانیے کا بھی یہی حال ہے۔ جب یہ بیانیے تشکیل دیئے جا رہے تھے تو ان بیانیوں کی بنیادیں رکھنے والوں نے عجلت میں نہ تو سچ کا سیمنٹ ڈالنا ضروری سمجھا اور نہ ہی حقیقت شناسی کے گارے کا استعمال کیا۔
نتیجتا یہ بیانیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے گئے وہیں بدلتی ہوئی جدید دنیا میں بھی ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہوتے چلے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے دفاعی اور مذہبی بیانیے کے خودساختہ ٹھیکیداروں کو دنیا کے دباؤ تلے گھٹنے ٹیک کر ان تمام سٹریٹیجک اثاثوں کو تلف کرنے کی اشد ضرورت آن پڑی ہے جو کبھی جہاد کی انڈسٹری اور کبھی مذہبی انڈسٹری کے ہیرو تصور ہوتے تھے۔
حافظ سعید کی نظر بندی اور ان کی جماعت کو کالعدم قرار دینا اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔ امریکی حکومت کا پس پردہ دباؤ اس قدر شدید تھا کہ ہم نے فورا اپنے نام نہاد سڑیٹیجک اثاثے کو نظربند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کشمیر کاز کیلئے حافظ سعید یا ان کی جماعت کی کیا خدمات ہیں اس کا اندازہ کشمیر میں نام نہاد جہاد کی پالیسی کو رول بیک کرنے اور مسعود اظہر سمیت حافظ سعید جیسے افراد کو نظر بند کرنے کے واقعات کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی روایتی جنگ سے حل نہیں ہو سکتا یہ وہ حقیقت ہے جو روز اول سے کوئی بھی کامن سینس رکھنے والا آدمی باآسانی بتا سکتا ہے لیکن آفرین ہے ہمارے بیانیے کو تشکیل دینے والوں پر۔ جنہوں نے جنگ جہاد اور مذہب پر مبنی ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس کو لے کر کشمیر تو کیا آزاد ہونا تھا خود اپنے وطن کی آزادی وخود مختاری پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔
اب حالات یوں ہیں کہ امریکہ تو دور کی بات افغانستان جیسا ملک بھی دوٹوک الفاظ میں ہمیں دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے والا ملک قرار دے کر کبھی حقانی نیٹ ورک اور کبھی دیگر جہادی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہم بھلے ہی اپنے وطن میں جس قدر مرضی پراپیگینڈہ پھیلا کر سادہ یا نیم خواندہ ذہنوں کو بے وقوف بنا لیں کہ ہم دہشت گردی ایکسپورٹ نہیں کرتے بلکہ جہاد کرکے مظلوموں کی مدد کرتے ہیں لیکن عالمی دنیا نہ تو ہمارا یہ پوائنٹ مانتی ہے اور نہ ہی ہمارے بیانات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سدھار کر اپنا مذہبی و دفاعی بیانیہ تبدیل کرنے کے بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیتے ہیں اور پھر بین الاقوامی دباؤ کے تحت اہنے ہی اقدامات اور نظریات سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور پوری دنیا میں اپنی سبکی اور رسوائی کا بھی خود ہی باعث بنتے ہیں۔ حافظ سعید کو بھارت کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمارے بیانیوں کے ٹھیکیداروں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ جہاد اور آزادی کشمیر کو گلوریفای کرکے معاشرے میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کا جو کلچر پروان چڑ رہا ہے اس کے مضمر اثرات سے خود اپنے ہی معاشرے کو کیسے بچایا جا سکے گا۔
اس جہاد کی انڈسٹری نے نفرت اور شدت پسندی کے جو بیج معاشرے میں بوئے ہیں نہ تو وہ حافظ سعید یا مسعود اظہر کو نظر بند کرنے سے ختم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے تمام شعبہ جات میں موجود ان صاحبان کے ہمدردوں کی سوچ کو اس سے بدلا جا سکتا ہے۔ بندوقوں سے محبت کرنے کا جو فلسفہ ملک کی گلی گلی اور چوراہوں تک دہائیوں پر محیط ریاستی پراپیگینڈے کے ذریعے پھیلایا گیا اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے بھی اب دہائیوں پر محیط صبر آزما سفر طے کرنا ہوگا۔ لیکن اس کے لیئے ہمیں دفاعی اور مذہبی بیانیے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
دو تین صدیوں قبل صنعتی انقلاب سے پہلے کی دنیا میں ایسے بیانیے قوموں اور معاشروں کو جنگوں میں جھونک کر علاقوں پر قبضہ کرنے کیلئے مفید ثابت ہوتے تھے لیکن صنعتی انقلاب کے بعد اور پھر اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد ایسے بیانیے نہ صرف زنگ آلود ہو گئے بلکہ خود اپنے تشکیل کرنے والوں کے وجود کیلئے خطرہ بن گئے۔ اب سٹریٹیجک اثاثے بل گیٹس مارک زکربرگ یا سٹیفن ہاکنگ جیسے افراد کہلاتے ہیں جن کی بدولت ممالک کی معیثت اور تحقیق کے میدان مضبوط رہتے ہیں اور بنا کسی جنگ کے دنیا میں معاشی غلبہ پا کر تسلط قائم کر لیا جاتا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر مجاہدین کے دم پردنیا کو فتح کیا جا سکتا تو آج افغانستان دنیا کی سپر پاور ہوتا۔ اگر محض جہادی یا شدت پسند تنظیموں کے بل پر جنگیں جیتی جا سکتیں تو کشمیر سے لیکر دہلی کے لال قلعے تک ہمارا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور نہ ہوگا۔ اس لیئے حافظ سعید کونظر بند کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے گلےسڑے دفاعی اور مذہبی بیانیے کو تبدیل کیا جائے۔ ہمارا مذہبی بیانہ جو دنیا پر مسلمانوں کے غلبے اور امت مسلمہ کے تصور کے گرد گھومتا ہے جبکہ اپنے معاشرے میں فرقہ واریت شدت پسندی کو ہوا دینے کے کام آتا ہے۔
حال ہی میں ٹرمپ نے جب سات مسلمان ملکوں کیلئے ویزے پر پابندی کا اعلان کیا تو ہمارے بیانیے کی خود ساختہ مسلم امہ سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر کہیں غائب ہوگئی۔ کسی ایک مسلم ملک میں نہ تو کوئی احتجاج دیکھنے کو ملا اور نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی خاص کوشش نظر آئی۔ البتہ ہمارے مذہبی بیانیے کے مطابق عیسائی یہودی اور کافر جو کہ ہمارے خیر خواہ ہیں ہی نہیں، ان لوگوں نے مسلمانوں سے یک جہتی کرتے ہوئے نہ صرف امریکہ بھر میں مظاہرے شروع کر دیئے بلکہ ائیر پورٹس کا گھیراؤ بھی کیا جس کے نتیجے میں ٹرمپ مسلمان ممالک کے بارے میں مزید اقدامات اٹھانے سے رک گیا۔
اب حقیقت پسندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہمارا مذہبی بیانیہ رواداری اور پوری دنیا کو برابر سمجھتے ہوئے انسانیت کی تکریم اور بنا کسی مذہب رنگ نسل کی تفریق پر قائم کیا جائے اور ہمارادفاعی بیانیہ بندوقوں تلواروں اور عہد رفتہ کے پرفریب قصوں سے تبدیل ہو کر امن محبت علم تحقیق ٹیکنالوجی کے گرد قائم ہوتا کہ حافظ سعید یامسعود اظہر جیسے شدت پسندوں کے بجائے ہمارے ہاں بھی آئن سٹائن سٹیفن ہاکنگ اور بل گیٹس جیسے افراد پیدا ہو سکیں۔ بصورت دیگر جدید دنیا میں اب ایسے بیانیوں کے پنپ پانے کی کوئی گنجائش نہیں۔