پیر حمید الدین سیالوی نے داتا دربار لاہور کے آگے تقریر کرتے ہوئے حکومت کو سات روز کے اندر اندر ملک میں شریعت نافذ کرنے کی ڈیڈ لائن دی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں 27 جنوری کو پنجاب اسمبلی کے گھیراوٴ کا اعلان کیا۔ جبکہ ان کے ساتھی مولانااشرف آصف جلالی نے 27 جنوری کو جیل بھرو تحریک کے آغاز کا اعلان بھی کیا ہے۔ وطن عزیز میں مذہب کو ہتھیار بنا کر مخالفین کے خلاف استعمال کرنا گو نئی بات تو نہیں ہے لیکن جس قدر تواتر سے مسلم لیگ نون کے خلاف مذہبی کارڈ کھیل کر اسے ہر صورت میں ایک مذہب مخالف اور قادیانی نواز جماعت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے لئیے آئندہ ہونے والے انتخابات میں مذہب کو ایک ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے ووٹ بنک کو توڑا جائے گا۔ پس پشت قوتیں اور مذہبی گدھ یہ حقیقت سمجھنے سے ابھی تک یا تو قاصر ہیں یا پھر جانتے بوجھتے اس حقیقت سے آنکھیں چرانا چاہتے ہیں کہ مذہبی جذبات بھڑکا کر اسے سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے سے نہ صرف معاشرے میں شدت پسندی کو فروغ ملتا پے بلکہ جن اقلیتوں کے نام پر یہ کارڈ کھیلا جاتا ہے ان کا معاشرے میں زندہ رہنا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔
ہمارے ہاں احمدی حضرات کا جینا تو ویسے ہی کسی عذاب سے کم نہیں ہے اور ایسے میں ان کے نام پر مولویوں اور پیروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے معاشرے کو مشتعل کرنے کا اقدام انتہائی چھوٹی اور پست سوچ کا آئینہ دار ہے۔ توہین مذہب یا مذہبی جذبات مشتعل ہونے کے نام پر عقائد و مسلک کی خود ساختہ بیڑیوں میں بندھے ہوئے مریدین کو شہروں اور شہریوں کے معمولات زندگی متاثر کرنے کی اجازت دینا اور کسی بھی مخالف کو توہین مذہب کے جرم کا قصور وار ٹھہرانے کا یہ کاروبار اندر ہی اندر دیمک کی مانند معاشرے کو نگلتا جا رہا ہے۔ لیکن طاقت کی بساط کے کھلاڑیوں کو اس کی رتی برابر بھی پروا نہیں ہے۔ مولوی خادم حسین کے ذریعے صرف دو ماہ قبل ریاست کو مشتعل ہجوم اور جتھوں کے ذریعے یرغمال بنوا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کروایا گیا اور اب ایک پیر کے زریعے صوبائی حکومت اور صوبائی دارلخلافے کو یر غمال بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب حافظ، سعید، مولانا، سمیع الحق اور ہمنواوں کو بھی ملکی سیاست میں لانچ کر کے سیاست کو مزید شدت پسندی اور تنگ نظری کی بھینٹ چڑہایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کار یہ سلسلہ کب رکے گا۔ پہلے رانا ثناالہ کا استعفی درکار تھا اور اب پیر سیالوی صاحب پورے وطن میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے پھر رہے ہیں۔ کسی زمانے میں مولوی صوفی محمد بھی اسی طرح کا مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے۔ اور پھر ساری دنیا نے ان کی شریعت کی تشریح اچھی طرح مردان و سوات میں لاگو ہوتے دیکھی۔ جس طریقے سے پیروں مولویوں اور سابقہ سٹریٹیجک اثاثوں کو سیاسی اثاثہ بنایا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے ناخداوں کا شدت پسند اور تعصب پر مبنی بیانیوں کو تبدیل کرنے کا کوئی بھی ارادہ نہیں ہے۔ اگر ناخداوں کو اس بستی کو تجربہ گاہ بنانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم پہلے سے کئے گئے ناکام تجربوں کے بجائے کوئی نئی قسم کے تجربے ہی کر لئیے جائیں۔
پیروں اور مولویوں نے ضیا الحق کے دور سے لیکر آج تک جس طریقے سے شدت پسندی اور جہالت پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ناخداوں کو کم سے کم ان عقائد کا کاروبار کرنے والوں کی پشت سے ہاتھ اٹھا لینے چائیے تھے۔ سادہ لوح افراد کو عقائد کی آڑ میں لوٹنے اور ایک دوسرے سے لڑوانے کے بعد اور سماجی ڈھانچہ تباہ کروانے کے د اب انہیں سیاست میں مین اسٹریم کر کے مرکزی سیاسی ڈھانچے کو بھی تباہ و برباد کرنے کا ارادہ ہرگز بھی سود مند نہیں اور نہ ہی عقل و فہم اسے قبول کرتے ہیں۔ ان مولوی پیروں اور جہادیوں کی بدولت جہالت تنگ نظری اور شدت پسندی ہمارے سماج میں رس بس چکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں نفسیاتی بیماریوں یا روزمرہ کے مسائل کو دم درود تعویذ گنڈوں کے دم پر حل کرنے کی بیماری عام بھی ہے بلکہ اس بیماری کو عقیدت مندی قرار دیتے ہوئے معاشرے میں اسے تقوی و پارسائی کی سند تک قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب مولوی حضرات ہیں جو دین کو بچانے یا اس کی ترویج کی آڑ میں معاشرے میں نہ تو صحت مندانہ مکالمے کی فضا ہموار ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی تہزیب و تمدن کو مذہبی تعصب کی مصنوعی اجاراداری سے رہائی دیتے ہیں۔ نرگسیت پسندی، اصلاف پرستی اور فتووں کے زریعے شدت پسندی پھیلانے میں ان حضرات کا کلیدی کردار ہے۔
رہی بات جہادی حضرات یعنی سٹریٹیجک اثاثوں کی تو دنیا پر نام نہاد جہاد کے زریعے قبضہ کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد ان حضرات کا زیادہ تر زور وطن عزیز میں اپنے ہی ہموطنوں کے قتال کی صورت میں صرف ہوتا ہے۔ فرقہ واریت، شدت پسندی اور دہشت گردی پھیلانے میں ان حضرات کا کردار کلیدی رہا ہے۔ یہ تینوں اقسام کے مذہبی اور عقیدوں کے سوداگر ایک نکتے پر متفق ہیں اور وہ ہے مخالفین کو مذہب کی آڑ لیکر توہین یا کفار کا ایجنٹ قرار دینا۔ کوئی بھی شخص جو علم و آگہی کے اجالوں سے پیار کرے وہ انکا مشترکہ دشمن قرار پاتا ہے اور جو بھی ان کو دلیل و منطق کی طاقت سے چیلنج کرے وہ توہین مذہب کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ انہی سوداگروں کی عنایات کی بدولت ہمارا سماج عورتوں کے بدن اور پردے، مباشرت کے طریقوں، حوروں کے خدوخال، مسواک کے طریقوں، جنوں چڑیلوں کو قبضے میں کرنے، پیری مریدی اور دشمنوں کو بذور اسلحہ زیرکرنے کے مباحث اور کاوشوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرنے پایا۔ اور اب ان سوداگروں کو سیاست کے میدان میں حریفوں کو پسپا کرنے کیلئے اتارنے والی نادیدہ قوتیں انہیں مزید جلا بخشتے ہوئےعوام کے منتخب نمائندوں کو ان کے رحم و کرم پرچھوڑنا چاہتی ہیں۔ پیر حمید الدین سیالوی کی رانا ثناالہ کے استعفے کا مطالبہ پر تو مسلم لیگ نون نے کان نہیں دھرے اور نہ ہی پیر صاحب کا یہ مطالبہ کوئی پرزور عوامی حمایت حاصل کرنے پایا۔ چنانچہ پیر صاحب نے شریعت کے نفاذ کو جواز بناتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ اس مطالبے کی آڑ میں مقصد رانا ثنالہ کا استعفی ہی ہو گا۔
حکومت پنجاب یا مسلم لیگ نون کو اب سیاست اور سیاسی نقصان سے ماورا ہو کر یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر کب تک ان کی حکومت اور جماعت پیروں اور مولویوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر بلوائیوں کے ہاتھوں حکومتی رٹ ختم کرواتے رہیں گے ? دوسری جانب عقائد اور مذہب کے نام پر ان پیروں اور مولویوں کے پراپییگینڈے کا شکار پڑھے لکھے حضرات کو بھی یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہب اور عقائد کے نام پر اربوں روپے کمانے والی پیروں، مولویوں اور جہادیوں کی انڈسٹری کا ایندھن بن کر ہم جانتے بوجھتے اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان سوداگروں کی غلامی میں جھونک رہے ہیں۔ قوموں اور معاشروں کی پہچان، اندھی تقلید، پیری مریدی، یا خود ساختہ جنگیں لڑنے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ ایک متوازن سماجی ڈھانچہ اور مضبوط معیثت اقوام عالم میں مقام و مرتبہ پانے کیلئے لازم و ملزم ہیں۔ اگر عقائد کے سوداگروں کی ریاست پر یلغار کے سلسلے کو روکتے ہوئے سماجی ڈھانچے سے بھی ان کا کردار اور اثر کم نہیں کیا گیا تو وطن عزیز میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے اور علم و آگہی کے اجالوں کے پنپنے کا خواب محض خواب ہی رہ جائے گا۔