1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. خدا اردو ادب کو صحت کاملہ عطا فرمائے ‎

خدا اردو ادب کو صحت کاملہ عطا فرمائے ‎

بانو قدسیہ کی زندگی کا اختتام ہوا۔ بانو قدسیہ اردو ادب کا ایک عہد تھیں۔ بانو قدسیہ کے لکھے گئے ناول اور افسانے آج بھی پڑھنے والوں میں انتہائی مقبول ہیں اور ان سے اختلاف کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو ادب میں انہوں نے اپنی تحاریر کے گہرے نقوش چھوڑے۔ بانو آپا کا لکھا ہوا شہرہ آفاق ناول "راجہ گدھ" سی ایس ایس کے کورس میں بھی شامل ہے۔ یقینا بانو قدسیہ کی مہارت ان کی لکھنے کی خداداد صلاحیتوں اور تحاریر کو ایک خوبصورت اسلوب میں ڈھالنے کی طاقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔

ٹین ایج میں بانو آپا کے پڑھے گئے ناول دیگر افراد کی طرح ہمارے بھی دل و دماغ پر نقش ہیں اور ان دنوں کی خوبصورت یادوں میں سے ایک ہیں۔ بانو قدسیہ نے لکھنے کا جو اسلوب اور انداز چنا وہ 70 کی دہائی کے بعد کے پاکستانی معاشرے کی اس نفسیات کی واضح نشاندہی کرتا ہے جس کے تحت افسانہ و ادب میں بھی اسلامائزیشن اور تہذیبی نرگسیت کا رنگ زبردستی گھول کر ڈال دیا گیا تھا۔ اور شاید بانو آپا کو زبردست پذیرائی ملنے کی ایک بہت بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ بدلتے ہوئے ریاستی اور سماجی بیانیے کے تحت ان کی لکھی گئی تحاریر ہر خاص و عام کی ادبی اور مفادی تسکین کا باعث بنتی تھیں۔

حاصل گھاٹ امر بیل اور دیگر کئی کتب نہ صرف انمول ہیں بلکہ اس دور کے رجحانات کی یادگار بھی۔ لیکن بانو قدسیہ شاید خواتین میں وہ پہلی بڑی مصنفہ ہیں جنہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اردو ادب میں بجائے رومان پروری یا اسلوب کو جدت دینے کے، ادب کو بھی تحقیق و جستجو سے عاری رکھنے کا کام انجام دیا۔ راجہ گدھ میں قیوم کا کردار جہاں معاشرے میں بسنے والے افراد کی جبلتوں اور روایتی سوچ یا اقدار کے درمیان کشمکش کی داستان کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے وہیں یہ ناول عمیرہ احمد جیسی کئی لکھاریوں کو بھی جنم دینے کا باعث بنتا ہے جو معاشرے کے بدنما چہرے کو انسانوں کے اجتماعی گناہوں کا نتیجہ قرار دیتے اسے گناہ و ثواب اور مذہب سے نتھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

راجہ گدھ کے بعد کی اکثر تحاریر میں شاید بانو قدسیہ پر اشفاق احمد کی روحانیت اور تصوف کا رنگ بھی غالب آ گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پھر نہ تو ہمیں بانو آپا کی قلم سے راجہ گدھ کی سیمی جیسا کردار پڑھنے کو ملا اور نہ ہی لارنس گارڈن کی خوبصورت شاموں کا احوال۔ بعد کی زیادہ تر تحاریر میں خواتین کو ہانڈی چولہا کرکے مرد کے ساتھ زندگی کو خدا کی رضا سمجھ کر گزارنے کی تلقین اور مرد کو روایات اور روحانیت کے تابع زندگی بسر کرنے کی تلقین نظر آئی۔ اور غالبا کسی بھی لکھاری کیلئے یہ جمود یا قدغن دراصل اس کی ادبی موت کے مترادف ہوتا ہے۔

افسانہ نگاری یا ڈرامہ نگاری خیالات کی وسعتوں اور افکار کو تغیراتی سانچے میں ڈھال کر معاشرے کو آگہی اور سوچوں کی وسعتوں کے بخشنے کا نام ہے۔ منٹو عصمت چغتائی یا عبدالله حسین جیسے ادیب معاشرتی پابندیوں یا اقدار میں نہ تو خود کو قید کرتے تھے اور نہ ہی ان کے خیالات کی وسعتیں کسی ایک نظریے تک محدود تھیں یہی وجہ ہے کہ ان لکھاریوں کہ تحاریر کو ایک عام آدمی کیلئے ہضم کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے اور ان کی تحاریروں میں اکثر اپنا عکس دیکھ کر قارئین چہرہ چھپانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

دوسری جانب بانو قدسیہ نے حقیقتوں سے فرار حاصل کرکے روحانیت کے نقاب میں اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے معاشرتی اور جبلتی حقیقتوں سے فرار کا درس دیا۔ افسانوی دنیا کے کردار بھی اگر مسلکی تقسیموں یا روایتی اقداروں کی مصلحتوں کا شکار ہونا شروع ہو جائیں تو معاشروں میں ایسے ادیبوں کی بہتات ہو جاتی ہے جنہیں لکھنے کیلئے نہ تو ایمیجینیشن کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں لکھتے وقت کوئی خاص کشٹ اٹھانا پڑتا ہے۔ بس قلم اٹھایا اور حرام حلال سے لیکر مذہب یا روحانیت یا پھر کفاروں پر غلبے کی لگی بندھی تحاریر سے اوراق کو سیاہ کیا۔ یا مشرقی عورت کا فرسودہ تصور پیش کرتے ہوئے اسے "باحیا" اور "ہانڈی روٹی" کرنے والی خاتون دکھاتے ہوئے جنتی قرار دے کر ناول یا افسانے سے سستی شہرت اور آمدنی کمائی اور تخلیق کے لفظ کو ہی منوں مٹی تلے دفن کر ڈالا۔

عمیرہ احمد، نمرہ احمد، نسیم حجازی وغیرہ اس ضمن میں تازہ ترین مثالیں ہیں جو اسی مقبول اسلوب کا سہارا لیتے ہوئے لکھاری یا افسانہ نگار کی جگہ خود ساختہ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بن بیٹھے۔ ایک افسانہ نگار یا ادیب کا کام اخلاقیات یا مذہب کی ترویج نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منٹو نے کہا تھا کہ میں اس سوسائٹی کے کپڑے کیا اتاروں گا جو پہلے سے ہی ننگی ہے۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ یہ میرا نہیں درزیوں کا کام ہے۔ خیر معاشرے کو کپڑے پہنانے اور روحانی لبادے کی سلائی کا یہ سلسلہ قدرت الہ شہاب، اشفاق احمد، ممتاز مفتی اور بانو قدسیہ سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری و ساری ہے۔

لکھنے کے اسلوب یقینا مختلف ہوتے ہیں لیکن ایک اچھا ادیب کبھی بھی پالولزم یعنی مقبولیت پر مبنی سوچ اور عقائد کو سامنے رکھ کر جانتے بوجھتے ایسے انداز تحریر کو نہیں اپناتا اور نہ ہی یہ ایک ادیب کا کام ہے کہ وہ معاشرے میں علم و ادب اور سوچ و تحقیق کی ترویج کرنے کے بجائے مذہبی و خود ساختہ اخلاقی ترویج کا کام دے کہ اس کام کیلئے بے شمار مختلف پلیٹ فارمز دستیاب ہوتے ہیں۔ لکھاری رنگ نسل مذہب اور دیگر قدامت پسند روایات کی قید سے آزاد ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے کی تخیلاتی صلاحتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مرحومہ بانو قدسیہ کو ضرور یاد بھی رکھنا چائیے اور ان کے بلند درجات کیلئے دعا بھی کرنا چائیے۔ لیکن سلسلہ شہابیہ اور سلسلہ اشفاقیہ کی صورت میں جو جمود بڑھانے میں بانو قدسیہ نے جو کردار ادا کیا اس کا ذکر بھی ضرور ہونا چائیے کہ زاویہ، شہاب نامہ اور راجہ گدھ نے اردو ادب سے الٹی شلوار ٹھنڈا گوشت، لحاف، آگ کا دریا جیسی تحاریر کو روحانیت مذہب اور اقداروں کی تلواروں سے ختم کرکے لاحاصل، جنت کے پتے، اور تلوار ٹوٹ گئی جیسےمی تخیلات سے عاری تحاریر اور ادیبوں کی بنیاد رکھی۔ خدا بانو آپا کو جوار رحمت میں جگہ عطا کرے اور اردو ادب کو صحت کاملہ عطا فرمائے تا کہ دہائیوں سے چھایا ہوا جمود ٹوٹے اور تخلیق کی نئی جدتوں کا رنگ ہمارے ادب میں نظر آئے۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔