کلبھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا کا اعلان ہوا اور ملک بھر میں ایک جنونی اور اضطرابی کیفیت طاری ہوگئی۔ سیاستدان، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے صحافی اور دانشوروں نے آسمان سر پھر اٹھا لیا۔ یوں کہیئے کہ ایسی کیفیت مسلط کر دی گئی کہ مجموعی طور پر وطن عزیز میں بسنے والے زیادہ تر افراد کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا گیا کہ جیسے اس بھارتی جاسوس کو سولی پر لٹکانے سے ہم نے بھارت کی کمر توڑ دی ہے اور سفارتی و سیاسی محاذ پر بھارت کو شکست فاش دے دی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
نہ تو کلبھوشن نامی سفاک جاسوس پہلا بھارتی جاسوس ہے جسے سزا سنائی گئی اور نہ ہی اس کے مرنے سے پال بھارت پراکسی جنگ کی شدت میں کوئی کمی آنے کا امکان ہے۔ دنیا بھر میں تمام ممالک اپنے جاسوس کو دوسرے ممالک میں جاسوسی پر معمور کرتے ہیں جس کا مقصد دوسرے ممالک کی اہم سرگرمیوں یا پیش رفت دوارے خفیہ معلومات اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر ایسےجاسوسوں کو دشمن ممالک میں دہشت گردی کرنے والوں کی معاونت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر یہ جاسوس پکڑے جائیں تو وہ ممالک جنہوں نے انہیں اس ڈیوٹی پر معمور کیا ہوتا ہے ان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ یوں ایسے افراد جن پر جاسوسی یا دہشت گردی میں ملوث پونے کا الزام ثابت ہو اکثر خاموشی سے مار دئیے جاتے ہیں۔
کلببھوشن بھارتی نیوی کا افسر ہےاور بطور را ایجنٹ اس پر جاسوسی اور دہشت گردوں کی معاونت کرنے کا الزام ثابت ہو چکا ہے تو پھر اس کی پھانسی کو کیوں ہوا بنا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ کلبوشن کوپھانسی دینے کے بعد ہمارے ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع ہو جائے گا۔ وہ سہولت کار جو کلبھوشن جیسے جاسوسوں کو معاونت دیتے ہیں ان کا تعلق ہماری ہی سرزمین سے ہوتا ہے جب تک ان سہولتکاروں کے مقامی نیٹ ورک کو نہیں توڑا جائے گا تب تک کلبھوشن جیسے جاسوس اس مربوط مقامی نیٹ ورک کو استعمال کرکے وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات رونما کرتے رہیں گے۔
تحریک طالبان ہو یا پھر دیگر شدت پسند تنظیمیں ان کی مالی معاونت بھی خاموشی سے بیرونی ذرائع سے کی جاتی پے اور انہیں بھارت اور دیگر ممالک اس کمال مہارت سے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں کہ خود اکثر ان تنظیموں کو بھی پتا نہیں چلتا۔ کلبھوشن کی پھانسی پر شادیانے بجانے سے بہتر ہے کہ وطن عزیز میں موجود ان تنظیموں اور افراد کا خاتمہ کیا جائے جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی وطن کی جڑی کھوکھلی کرتے ہیں۔ اس کی پھانسی کو بنیاد بنا کر دونوں ممالک کی جانب سے اپنی اپنی عوام کو ایک دوسرے سے نفرتوں کی جانب راغب کرنا نا صرف دونوں ممالک میں شدت پسند مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی محاذوں پر بھی ایک دوسرے سے دوری کا باعث بنتا ہے۔
اجمل قصاب ہو یا کلبوشھن دونوں کی سزاؤں کو بنیاد بنا کر پاکستان اور بھارتی عوام کو جنگی جنون کے خبط اور ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے نظریات کے تابع بنا کر پاکستان اور بھارت سوائے تعصب، نفرت پر مبنی قومیت پرستی کے سوا کوئی مثبت فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ ایک دوسرے کے علاقوں میں جب کلبوشھن یا اجمل قصاب جیسے لوگوں کے دم پر دہشت گردی کے واقعات بپا کیئے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں دونوں جانب زیادہ تر عام آدمی ہی لقمہ اجل بنتا ہے۔ وہ عام آدمی جس کی زندگی کا محور بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرتے ہوئے زندگی سے خوشیوں کے چند لمحات چرانا ہوتا ہے۔
دونوں ممالک میں عام انسانوں کی زبان رہن سہن اور رسومات تقریبا ایک جیسی ہیں۔ بس ان کے نام مختلف ہیں۔ محض ایک دوسرے کو تباہ کرنے اور سیاسی و سفارتی سطح پر ایک دوجے کو نیچا دکھانے کی کاوشوں میں ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندانہ نظریات یا پراکسی جنگوں سے بے پناہ معاشی و اقتصادی نقصان ہوتا ہے یوں بھی کشمیر سیاچن اور دیگر تنازعات جنگوں کی بنا پر حل نہیں کیئے جا سکتے۔ ان مسائل کے حل کیلئے بہرطور جاسوسی یا جنگوں کے بجائے مزاکرات کی میز کا استعمال ہی بہتر ہے۔
کلبھوشن سینکڑوں نہتے افراد کی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا اور ایک شفاف طریقے سے مقدمے کی سنوائی کے بعد اس کی سزا بالکل درستاقدام ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت دونوں کو اب پراکسی جنگوں اور ایک دوسرے کی سرزمینوں پر جاسوس اور دہشت گرد بھیجنے کے بجائے بات چیت اور امن کی جانب قدم بڑھانے کی ازحد ضرورت پے تا کہ دونوں ممالک ہتھیاروں پر اربوں روپیہ ضائع کرنے کے بجائے اپنی اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر اس پیسے خرچ کر سکیں اور ترقی کی جانب پیش رفت کر سکیں۔
کلبھوشن یادیو کی سزا سے متعلق سب سے اچھا تجزیہ معروف صحافی اور انتہائی عزیز ساتھی برادرم سبوخ سید نے کیا کہ "سنجیدہ کام یہ تھا کہ مداخلت کار کو جرم ثابت ہونے پر خاموشی سے پھانسی دی جاتی اور عقیدے کے مطابق کریا کرم کر دیا جاتا۔ " کلبھوشن کی پھانسی کی سزا بالکل درست اقدام ہے لیکن اس اقدام کو لے کر میڈیا کے ذریعے عوام کو ایک ہسٹریا میں مبتلا کرنے سے گریزکرنے کی ضرورت ہے۔