لودھراں کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے ایک غیر معروف امیدوار اقبال شاہ کی جیت نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون کو آنے والے انتخابات میں شکست نہیں دینے پائیں گے۔ NA154 کا یہ حلقہ پنجاب میں تحریک انصاف کا مضبوط ترین انتخابی حلقہ تصور کیا جاتا تھا جہاں تحریک انصاف کے سب سے بااثر رہنما جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین نے انتخاب لڑا۔ آپ اس حلقے میں تحریک انصاف کی مضبوط پوزیشن کا اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخری پولنگ سٹیشن کا نتیجہ آنے تک تجزیہ کار اور خود تحریک انصاف کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہاں سے علی ترین کو لگ بھگ 28 ہزار ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست ہو سکتی ہے۔ اس حلقے کی انتخابی مہم چلانے میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کی تمام تر اعلی شخصیات پیش پیش رہیں۔
جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ نون کی اعلی قیادت میں سے کسی ایک نے بھی اپنے امیدوار کی انتخابی مہم میں شرکت نہیں کی۔ اس اپ سیٹ نے ایک حقیقت عیاں کر دی اور وہ یہ کہ نواز شریف کا بیانیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اس شکست سے یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ تحریک انصاف آج تک انتخابی سیاست کے گر کو سیکھنے سے قاصر رہی ہے۔ عمران خان ایک سیلیبریٹی کے طور پر تو جانے اور مانے جاتے ہیں لیکن سیاست کے میدان میں اپنے دم پر اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت وہ کسی بھی خاص قسم کی کامیای سے محروم رہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ان کا سیلیبریٹی مائنڈ سیٹ سے باہر نہ نکل پانا ہے۔ سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا انتخابات جیتنے کیلئے تشہیر کا ایک ذریعہ تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کے دم پر انتخابات نہیں جیتے جاتے۔ دوسری بڑی غلطی جو عمران خان سے بار بار سرزد ہو رہی ہے وہ ناشائستہ اور غیر مہذب زبان کا استعمال ہے۔ پنجاب کے باسیوں کا اپنا ایک مزاج ہے یہاں بڑھکوں اور دشنام طرازیوں کو وقت گزاری کیلئے پسند تو کیا جاتا ہے لیکن انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
ایک جانب جب مخالفین عملی طور پر پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی لمبی چوڑی فہرست کے ساتھ میدان میں ہوں تو پھر محض اسٹارڈوم یا دشنام طرازیاں ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں معاون نہیں ثابت ہوا کرتیں۔ اگر عمران خان جہانگیر ترین کے بیٹے کے بجائے کسی اور امیدوار کو بھی یہاں سے ٹکٹ دیتے تو نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جب شیریں مزاری عمر چیمہ اور جسٹس وجیہ الدین جیسے ذہین اور قابل دماغوں کو پس پشت ڈال کر ہوا کے رخ پر اپنی سیاسی وفاداریوں کو تبدیل کرنے والے افراد کو جماعت کا چہرہ بنا کر پیش کیا جائے گا تو پھر نتیجہ ایسا ہی نکلے گا۔ خیر اس ضمنی انتخاب کی ایک قابل ستائش بات تحریک انصاف کے امیدوار علی ترین کا اپنے سیاسی حریف کے انتخابی کیمپ کا دورہ اور وہاں بیٹھ کر چائے پینا تھا۔ امید ہے اس نوجوان کے اس عمل سے سینئر سیاستدان بھی سبق سیکھتے ہوئے سیاسی لڑائی کو محض سیاست کے میدان تک ہی رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا گر ضرور سیکھیں گے۔ علی ترین نے شائستہ روایت کی بنیاد ڈالی ہے اور اسے اس کا کریڈٹ ضرور دینا چائیے۔ لودھراں میں شکست کا سبب بھی یہ نوجوان نہیں تھا بلکہ تحریک انصاف کی اپنی ناکام سیاسی حکمت عملی نے اس حلقے میں تحریک انصاف کو شکست سے دوچار کروایا۔
مسلم لیگ نواز کیلئے اس حلقے سے جیت کا مطلب ان کے موقف کی عوامی عدالت میں جیت ہے۔ مجھے کیوں نکالا کے بیانئے کا چاہے جتنا مرضی مذاق اڑایا جائے لیکن عوام نے اس بیانئے کو پسند کیا ہے۔ اس پر اعتبار کیا ہے۔ عدالت سے نااہلی کا فیصلہ دراصل نواز شریف کو اور مضبوط کر چکا ہے۔ ہمدردی کی جو لہر اس وقت نواز شریف کے حق میں چل رہی ہے اس کو کسی طور بھی سیاسی انجینئرنگ کے دم پر ختم کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مرحومہ عاصمہ جہانگیر نے انتہائی واضح الفاظ میں اعلی عدلیہ کو گوش گزار کر دیا تھا کہ سیاستدانوں کے صادق اور امین ہونے اور اہل یا نااہل ہونے کے فیصلے صرف عوام کرتی ہے۔ ان کی اس بات کی تصدیق لاہور، چکوال اور لودھراں کے انتخابی نتائج نے بھی کر دی ہے۔ اب بھی اگر معزز عدلیہ کو عوام کی گواہی قبول نہیں ہے اور پس پشت قوتوں کو عوام کا فیصلہ منظور نہیں ہے تو پھر صورتحال صرف اور صرف ٹکراو کی جانب بڑھے گی جس کا واضح نقصان اقتدار کی جنگ کے تمام فریقین کو ہو گا۔
نواز شریف نے جو راستہ چنا ہے اس کا انجام تخت یا تختے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ اور ایک ایسا شخص جو اپنا سب کچھ داو پر لگا کر عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں سمیٹ چکا ہے اس کو سیاست سے مائنس کرنا ممکن نہیں ہے۔ شیخ مجیب سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو پر مائنس کے فارمولے آزمائے جا چکے ہیں اور وہ تمام فارمولے بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کے بانی کو عدالتی سیاہ فیصلے سے سولی پر چڑھایا گیا اور وہ بینظیر بھٹو جسے کبھی کرپٹ قرار دیا گیا کبھی جلاوطنی پر مجبور کیا گیا اور پھر اس کی پراسرار موت بھی واقع ہوئی، ان باپ بیٹی کی جماعت کو اقتدار میں آنے سے نہ روکا جا سکا۔ اس کے برعکس جب 2013 میں حکومت سنبھالنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے بیڈ گورننس کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور اقدامات سے چشم پوشی اختیار کی تو عوام نے ووٹ کی طاقت سے پنجاب خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے اس جماعت کا مکمل صفایا کر دیا اور آج یہ نوبت ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی ہر ضمنی انتخابات میں اپنی ضمانتیں ضبط کرواتی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی آخری نمبروں پر دکھائ دیتی ہے۔ جو کام پس پشت قوتیں، عدالتیں اور بدترین آمر دہائیوں میں تمام طر حربے استعمال کرنے کے باوجود نہ کرنے پائے وہ کام عوام کے اجتماعی شعور نے بیلٹ بکس کی طاقت سے پل جھپکتے میں کر دکھایا۔
اب اگر عوام تمام تر عدالتی فیصلوں اور الزامات کی بوچھاڑ کے باوجود نواز شریف کے بیانئے کو پسند کرتی ہے اسے تسلیم کرتی ہے اور ووٹ کی طاقت سے اس کی جماعت کو ضمنی انتخابات میں کامیاب کرواتی ہے تو اس کا مطلب صاف اور سیدھا ہے کہ بیلٹ باکس کی قوت اس وقت نواز شریف کے پلڑے میں موجود ہے اور بیلٹ باکس کی اس طاقت کو قلم کی نوک پر لکھے گئے فیصلوں یا بندوقوں کے دم پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف 1980 کی دہائی سے سیاست میں موجود ہے اور سیاسی صنم کدے کے تمام بتوں اور ان کو تخلیق کرنے والے کوزہ گروں سے اچھی طرح واقفیت حاصل ہے۔ چونکہ وہ خود کسی دور میں اس سیاسی بت کدے کے ناخداوں کے ہاتھ سے تشکیل دیا جانے والے بتوں میں سے ایک بت تھا اس لئیے وہ سیاسی بت سازوں کے تمام حربوں کو جان گیا ہے۔ 1993 میں اس نے بت سازوں کے بت خانے میں محض ایک بت رہنے کے بجائے خود کوزہ گر بننے کی ٹھانی اور بت سازوں کی بیعت سے انکار کر دیا۔ اس وقت سے شروع ہو کر آج تک کا یہ سفر اور لودھراں کے ضمنی انتخاب کی جیت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ نواز شریف اب خود سیاسی بت خانے میں کوزہ گر بن بیٹھا ہے اور بت سازوں کیلئے اب سیاسی بت خانے پر تسلط جمائے رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ نواز شریف جانتا ہے کہ بت تراشوں کے ترکش میں اب جو "تیر" ہے وہ کارگر نہیں رہا۔
آپ نواز شریف کے بت کو پوجتے ہوں یا کسی اور سیاسی بت کو، لیکن بہر حال آپ کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ملکی سیاسی صنم خانے میں نواز شریف وہ واحد بت ہے جو نہ صرف بت تراشوں کے کھیل کو پہچان گیا بلکہ ان میں سے ایک (مشرف ) کو پچھاڑ بھی دیا۔ بت تراش جانتے ہیں کہ سیاسی صنم کدے میں اگلی باری بھی انہی کے تراشے ہوئے باغی بت نواز شریف کی ہے اور اگلی باری میں وہ ان ہاتھوں کو مزید بت بنانے سے روکنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو بت تراشوں کو ہر چند قبول نہیں۔ لیکن قباحت یہ ہے کہ پجاری (عوام ) نواز شریف کے بت کی صنم خانے میں اب بھی پرستش کرتے ہیں۔ بت تراش سیاسی صنم خانے کو ڈھا بھی نہیں سکتے کہ ایسا کرنے کی صورت میں بڑے اور بین الاقوامی بت ساز انعام و اکرام کی بارشیں ختم کر دیں گے اور بت سازوں کو بت بنانے اور دوبارہ سے ایک نیا سیاسی صنم کدہ تعمیر کرنے کیلئے نہ تو وسائل مہیا ہوں گے اور نہ ہی معاونت۔ بہرحال بت تراش صنم خانے کو ہی ڈھا دیتے ہیں یا نواز شریف کا بت ان بت تراشوں کو۔ اس کے نتیجے کی جھلک لودھراں کے ضمنی انتخاب میں نظر آرہی ہے اور مستقبل قریب میں عام انتخابات کے منعقد ہونے کے بعد اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ۔ شاید بت تراشوں کو نواز شریف کا بت تراشتے ہوئے اس بات کا فہم نہیں تھا کہ نواز شریف ایک دن خود کوزہ گر بن جائے گا اور پھر خود چھوٹے چھوٹے بت تراش کر خود بت سازی کے اس کھیل کو ختم کرنے کے درپے ہو جائے گا۔ بات شروع ہوئی تھی لودھراں کے انتخابی نتیجے سے اور اس ضمنی انتخاب کے نتیجے کا حاصل کردہ سبق یہ ہے کہ مائنس ون یا مائنس ٹو کا فارمولا ریاضی کی منطق اور علم پر تو بالکل صیح لاگو ہوتا ہے لیکن سیاست کے میدان میں نہیں۔ "اب سیاسی بت سے سیاسی کوزہ گر بننے والے نواز شریف کو کم سے کم مہروں کے دم پر اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے نہیں گرایا جا سکتا۔