پانامہ کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ چند ہی روز میں سنائے جانے کا امکان ہے۔ معزز سپریم کورٹ آف پاکستان نے کئی ماہ کی شنوائی کے بعد اس فیصلے کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہ کیس کسی بھی اخلاقی یا مالی کرپشن سے ہٹ کر خالصتا سیاسی نوعیت کا ہے۔ وطن عزیز میں جہاں جمہوریت پہلے ہی سے کمزور اور ناتواں ہے اس کیس کا فیصلہ لنگڑی لولی جمہوریت کو مزید کمزور بنانے میں معاون ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
پانامہ پیپرز سے متعلق اس کیس کی ابتدا اسی روز ہوگئی تھی جب آئی سی آئی جے نامی صحافتی تنظیم نے اس حوالے سے انکشافات کیئے تھے اور ان میں دنیا کے بااثر ترین شخصیات کی آف شور کمپنیوں کا ذکر ہوا تھا۔ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کے بیٹے اور بیٹی کا نام شامل تھا لیکن نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا۔ لیکن وزیراعظم کی اولاد کے نام کا پانامہ لیکس میں آنا اپوزیشن جماعت تحریک انصاف اور اسٹبلیشمنٹ کےاسے سیاسی اور دیگر مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کیلئے کافی تھا۔
عمران خان کو فرشتوں کی سرپرستی میں اس کیس کو مکمل سیاسی رنگ دینے اور نواز شریف کے خلاف استعمال کرنے کیلئے فری ہینڈ دے دیا گیا۔ اربوں روپے خرچ کرکے اس کیس کو میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے تعاون سے نواز شریف کے خلاف بیانیہ تیار کرنے میں استعمال کیا گیا۔ اس بیانیے کو تیار کرنے کے بعد پچھلے سال نومبر میں عمران خان کو دارلحکومت کو یرغمال بنانے کا ٹاسک سونپ دیا گیا تا کہ نواز حکومت کو احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے ختم کیا جا سکے۔ لیکن عمران خان عوام کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر نہ نکال سکے اور یوں نواز شریف اس لڑائی میں فاتح بن کر نکلے۔
اس ناکام احتجاج کے بعد عمران خان کی سیاسی موت تقریبا ہو چکی تھی۔ اس موقع پر فرشتوں نے ایک بار پھر خان صاحب کو مصنوعی سیاسی تنفس کے ذریعے ایک نئی سیاسی زندگی عطا کی۔ راتوں رات سپریم کورٹ کو پانامہ کیس سننے میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان کے نامی گرامی وکلا رہمناؤں جن میں عاصمہ جہانگیر اور علی احمد کرد بھی شامل ہیں ان سب نے عدالت کے اس سیاسی کیس کی سماعت کو غلط قرار دیا۔ اور ان کی بات کافی حد تک درست تھی۔
پاکستان میں عدلیہ کا ریکارڈ سیاسی نوعیت کے اعتبار سے ہرگز بھی اچھے ریکارڈ کا حامل نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے لیکر نواز شریف کو ہائی جیکر قرار دینا اور یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کے فیصلے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان سیاسی رہمناؤں کو سزا دی گئی۔ اسی طرح ہر مارشل لا کو اعلی عدلیہ کی پشت پناہی اور تعاون کے بدولت قانونی جواز فراہم کیا جاتا رہا۔
سیاست کی رموز سے آشنا ہر شخص اس امر سے واقف تھا کہ پانامہ کا کیس دراصل نوز شریف اور جمہوریت کے خلاف ایک نفرت انگیز بیانیہ قائم کرنے کی کوشش ہے۔ اور توقعات کے مطابق ٹھیک ایسے ہی ہوا۔ عدالت میں عمران خان اپنے لگائے الزامات کے حق میں ایک بھی ٹھوس ثبوت مہیا نہ کرنے پائے لیکن انہیں پھر بھی فری ہینڈ دیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر معزز جج حضرات کی طرف سے انتہائی حیران کن اور دلیل کے منفی آبزورویشن دی گئیں اور ان آبـزرویشن کو لے کر میڈیا کی خود ساختہ عدالت میں عمران خان اور فرشتوں نے نواز شریف کو مجرم تک قرار دے ڈالا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک سابقہ صنعت کار اور منتخب وزیراعظم کو عدالت کی جانب سے یہ کہا گیا کہ جو پیسہ یا دھن ان کے بزرگوں نے کمایا اس کا بھی ریکارڈ مہیا کیا جائے۔ یہاں یہ بات قابل زکر ہے کوئی بھی پاکستانی شہری سات سال سے پرانی کسی فنانشیل ٹرانزیکشن کی رسید فراہم کرنے کا پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت میں ایک ایسا فرد جس پر کوئی الزام لگے اسے ان الزامات کے حوالے سے کسی قسم کے ثبوت مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ثبوت مہیا کرنا الزام لگانے والے کے ذمہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس نواز شریف اور ان کی اولاد کو ثبوت مہیا کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری جانب خان صاحب کو بھرپور اختیار گیا کہ وہ عدالت اور میڈیا میں الزامات کی بوچھاڑ کر دیں۔
نواز شریف کی جماعت کا میڈیا ونگ چونکہ کمزور پے اس لیئے میڈیا کی حد تک عمران خان اور فرشتوں کے قائم کردہ بیانیے کا جواب موثر انداز میں پیش کرنے یا ایک بیانیہ اس سازش کے خلاف بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے پراپیگنڈے کا بھی نواز شریف کی جماعت کا میڈیا ونگ جواب نہ دے پایا۔ یوں نواز شریف اور سیاستدانوں کے خلاف ایک بیانیہ مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا گیا۔ پانامہ کیس شروع سے ہی پراپیگنڈہ کی جنگ تھی اور نواز شریف سے زیادہ اس بات کو شاید ہی کوئی دوسرا سیاستدان سمجھ سکتا ہے۔
نوے کی دہائی میں فرشتوں کے منظور نظر اور صف اول کے اتحادی ہونے سے لیکر آج کے دور کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کے وکیل تک کے سفر کے دوران نواز شریف اچھی طرح جان چکے ہیں کہ کیسے بیانییے تیار کرکے پراپیگینڈہ کے دم پر اور اداروں کو استعمال کرکے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو عوام میں ناپسندیدہ بنایا جاتا ہے اور کیسے حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا ہے۔ اپنی کمزور میڈیا کی ٹیم کے ذریعے نواز شریف پانامہ کیس کے بیانیے کی جنگ میڈیا میں تو نہ جیت پائے لیکن انہوں نے یہ جنگ وہاں جیتی جہاں جیتنا سب سے ضروری تھا۔
پنجاب کے مختلف علاقوں اور حلقوں کا نہ صرف وہ خود دورہ کرکے اپنے ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹتے رہے بلکہ اپنے ترقیاتی کاموں کا محور بھی پنجاب کو ہی رکھا۔ یہی وجہ ہے قومی اور صوبائی حلقوں کے تقریبا تمام ضمنی انتخابات میں ان کی جماعت کو پنجاب سے کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن بہرحال جو بیانیہ ملک بھر میں ان کے خلاف تیار پوا اس کو مکمل طور پر کاؤنٹر نہ کیا جا سکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پانامہ پیپرز کے کیس کا فیصلہ چند روز میں سنا دیا جائے گا اور یہ فیصلہ سیاسی اعتبار سے نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ جمہوری بیانیے کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
موجودہ صورتحال اور ثبوتوں کی عدم موجودگی میں عدالت عظمی نواز شریف کو نہ تو نااہل کر سکتی ہے اور نہ ہی ان پر لگائے ہوئے الزامات کو درستـ مانتے ہوئے انہیں مجرم ٹھہرا سکتی ہے۔ لیکن عدلیہ نواز شریف کو مکمل طور پر کلین چٹ بھی فراہم نہیں کرے گی۔ فیصلے میں کئی نکات ایسے شامل ہوں گے جن کی سیاسی تشریح کے مطابق نواز شریف اپنی آمدن کا ٹھوس ثبوت میہا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مریم نواز کے آف شور کمپنی میں بینیفیشل آنر ہونے کے حوالے سے عدالت مزید تحقیقات کا حکم دے دے۔
عمران خان اور فرشتوں کیلئے عدلیہ کی جانب سے یہ مبہم فیصلہ نہ صرف ان کی سیاسی جنگ کو مزید کامیاب بنانے کیلئے کافی ہوگا بلکہ پراپیگینڈے کے دم پر اس کے زریعے جمہوریت اور سیاستدانوں سے عوام کو مزید متنفر بھی کیا جائے گا۔ دوسری جانب اس فیصلے کی مدد سے مریم نواز جو کہ مسلم لیگ کا نیا چہرہ ہیں اور آئندہ اپنی جماعت کی جانب سے وزیراعظم بننے کی موثر ترین امیدوار بھی ہیں ان کو بھی قابو کر لیا جائے گا۔
مریم نواز پہلے سے ہی اپنے سوشل میڈیا کی ٹیم کی دفاعی فرشتوں پر تنقید اور ڈان لیکس کے ایشو کی وجہ سے فرشتوں کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ خیر اس پانامہ پیپرز کیس کا فیصلہ جو بھی ہو لیکن اس کے دم پر پراپیگینڈے کے ذریعے قائم کیئے گئے بیانیے کے سہارے جمہوریت کے خلاف بیانیہ کو تقویت مل چکی ہے۔ سیاسی نقصان پہلے سے ہی ہو چکا ہے اور جمہوریت مخالف قوتوں کی تقویت کا باعث بھی بن چکا ہے۔ خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے شوق میں اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو کر جمہوری بیانیے کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے شاید آنے والا وقت عمران خان کو یہ باور کروا دے گا کہ جمہوری مخالف بیانیہ تشکیل دینے اور فرشتوں کا مہرہ بن کر انہوں نے اقتدار میں آنے کے امکان جو کہ پہلے ہی بے حد کم تھا اسے یکسر ختم کر دیا ہے۔
دوسری جانب نواز شریف اور ان کی جماعت کیلئے عام انتخابات جیتنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ پنجاب ابھی بھی انتخابی سیاست کے محاذ پر انکے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جمہوریت محض انتخابات جیتنے سے مضبوط نہیں ہوا کرتی اسے شفافیت، انصاف اور عوامی فلاح کے اجزائے ترکیبی بھی آکسیجن کی مانند درکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اقتدار اور طاقت کی اس جنگ میں سیاستدانوں نے خود اپنے اور جمہوریت کے خلاف بیانیے کو مضبوط کرکے جمہوریت کی کوئی خاص خدمت نہیں کی۔ پانامہ پیپرز کے کیس کا فیصلہ دراصل کسی بھی سیاسی فریق کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ ہر صورت میں جمہوری بیانیے کے خلاف آئے گا۔