فرانس کے صدر سے کسی نے پوچھا تھا کہ حضور آپ ساری زندگی کنوارےکیوں رہے؟ انہوں نے جواب دیا مجھے آئیڈیل کی تلاش تھی۔ سوال کرنے والے نے پوچھا تو کیا آپ کو آئیڈیل نہیں ملا۔ انہوں نے جواب دیا نہیں مجھے میرا آئیڈیل تو ملا تھا لیکن اس کا آئیڈیل میں نہیں کوئی اور تھا۔ آئیڈیلزم کے ساتھ بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہ آبجیکٹو نہیں سبجیکٹو ہوتا ہے اور دنیا میں ہر شخص کا اپنا اپنا منفرد آئیڈیل ہوتا پے۔ یہی چیز نظام دوارے بھی لاگو ہوتی ہے اور دنیا میں ہر شخص کا نظام کے بارے میں اپنا اپنا خیال تصور یا آئیڈیل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ دنیا کے جدید ترین معاشروں اور بہتر سے بہتر نظام کے حامل ممالک میں بھی چلے جائیں تو وہاں بھی لوگ نظام سے مطمئن نہیں دکھائی دیتے کیونکہ انسان کی فطرت میں آئیڈیلزم اور بہتر سے بہتر کی جستجو ہے۔ گوئٹے نے اس بہتر سے بہتر پانے کی انسانی تمنا کو اپنی شاعری میں خوب بیاں کیا تھا۔
ایک انسان جنت میں داخل ہوتا ہے اور وہاں حور یا خوبرو دوشیزہ کو دیکھ کر پہلے تو بہت خوش ہوتا ہے مگر پھر اس سے نظریں ہٹا کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ حور کو غصہ آتا ہے اور پوچھتی ہے اب جب میں مل گئی ہوں تو ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو۔ وہ انسان جواب دیتا ہے میں اب تم سے بھی بہتر اور خوبصورت دوشیزہ کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ انسانی فطرت کی اس کمزوری یا اس نقطے کو ایڈورڈ برنیز نامی ماہر نفسیات نے آج سے سو سال پہلے اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ اس نے کارپوریٹ کمپنیوں اور مختلف سیاسی طاقتوں کے ساتھ مل کر انسان کی اس خوب سے خوب تر کی جستجو کو کیش کرنے کیلیے پراپیگینڈا منظم مارکیٹنگ اور لابنگ کی اصطلاحات جدید طرز پر روشناس کروائیں اور انتہائی کامیابی سے ان کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو پراپیگنڈہ کے تابع کرنے کے عمل کا آغاز کیا۔ آپ اس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں جسے نالج اور ٹیکنالوجی کی صدی قرار دیا جاتا ہے آج بھی پراپیگنڈہ لابنگ اور مارکیٹنگ پر اربوں ڈالرز خرچ کیئے جاتے ہیں۔ انسانوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے اپنی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے رائے عامہ کو اپنے حق میں ایک منظم پراپیگنڈہ کے تحت تابع کیا جاتا ہے۔
امریکہ سے لیکر پاکستان تک اس پراپیگنڈے کو لوگوں پر تھوپنے کیلئے سب سے زیادہ انحصار الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اشتہارات اور مختلف جھوٹے ریسرچ پیپز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یوں عراق سے لیکر لیبیا تک حکومتوں کے تخت گرائے جاتے ہیں شام مصر سیریا افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا جاتا ہے اور جہاں بزور طاقت کام نہ بنے وہاں حکومتوں کے تخت منظم انداز میں کبھی انقلاب کبھی کرپشن کے خاتمے اور کبھی وہاں بسنے والوں کی بہتری کے نام پر گرائے جاتے ہیں۔ انسان چونکہ پراپیگنڈے سے متاثر ہوتا ہے اس لیئے اپنے اوپر تھوپے جانے والی مرضی سے بے خبر اپنے تمام مسائل کی جڑ حکومتوں یا نظام پر ڈالتے ہوئے اس منظم پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے یا یوں کہیئے کہ اپنی ناکامیوں یا کوتاہیوں کا ملبہ نظام پر گراتے ہوئے چہرے تبدیل کرنے کے اس عمل میں شریک ہو جاتا ہے۔ حالانکہ عراق سے لیکر مصر اور لیبیا تک جہاں جہاں حکومتوں کو گرایا گیا حکمرانوں کو قتل کرکے دوسرے حکمرانوں کو لایا گیا وہاں نہ تو دودھ اور شہد کی نہریں آج تک بہنا شروع ہوئیں اور نہ ہی وہاں بسنے والے لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آنے پائی۔ لیکن یہ منظم پروپیگنڈا اس قدر پرفریب ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں اسے خریدنے والوں کی بہتات کثرت سے پائی جاتی ہے بس فرق یہ ہے کہ مہذب دنیا میں اس پراپیگنڈے کے زیر اثر پرتشدد طریقوں کے بجائے انتخابات کروا کر تمام فریقین کو اپنا اپنا ایجنڈا بیان کرکے عوام کی فریکچرڈ رائے سے انتخابات کے ذریعے حکمرانی کا موقع دیا جاتا ہے جب کہ تیسری دنیا کے ممالک میں آج بھی انقلاب کا چورن بیچ کر کبھی پرتشدد مظاہروں اور کبھی آمریت کے زریعے رائے عامہ پر اپنی مرضی تھوپی جاتی پے۔
ہم چونکہ تیسری دنیا کے ممالک میں شمار ہوتے ہیں اور مزاجا سہل پسند اور رومان پرور ہیں اس لیئے تبدیلی یا انقلاب کے الفاظ فورا ہمیں اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ کوئی بھی شخص منظم پراپیگینڈے اور غیر جمہوری طاقتوں کی شہ پا کر اٹھتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف چند دن چند مہینوں کے اندر نکال سکتا ہے تو ہم فورا اس پر ایمان لانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم سوائے چہروں کی تبدیلی کے اور کچھ نہ کرنے پائے۔ ایوب خان نے کہا اسکندر مرزا بے ایمان ہے ہم نے مان لیا اس نے کہا فاطمہ جناح غدار ہے ہم نے خاموشی سے تسلیم کر لیا۔ بھٹو اور یحی نے کہا ایوب مردہ باد ہم نے کہا مردہ باد۔ انہوں نے کہا شیخ مجیب اور بنگالی غدار ہم نے کہا غدار۔ ضیاالحق نے کہا بھٹو قاتل تھا غدار تھا ہم نے کہا بالکل ٹھیک۔ بی بی آئی تو ہم نے کہا زندہ ہے بھٹو زندہ ہے نواز شریف آیا تو ہم نے کہا نواز شریف زندہ باد۔ مشرف آیا تو وہ زندہ باد اور نواز شریف مردہ باد ہوگیا۔ پھر زرداری آیا تو ایک زرداری سب پر بھاری ہوگیا اور نواز شریف کے آتے ہی قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ہوگیا اور اب جب نواز شریف کی شکل دیکھ دیکھ کر تنگ آ گئے تو عمران خان زندہ باد اور گو نواز گو ہوگیا۔ یہ ہماری پڑھی لکھی مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ ہم ہمیشہ برنیز کے بنائے گئے لاشعور کو فتح کرنے کے پراپیگینڈے کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ملبہ جمہوریت اور جمہوری نظام پر ڈالتے ہوئے ایک ایسے انقلاب یا تبدیلی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں جس کا کوئی وجود سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے۔ طاقت کی بساط کے کھلاڑی اپنے اپنے پیادے اس لڑائی میں اتارتے ہیں اور باآسانی عوام کو اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس ساری لڑائی میں طاقت کی بساط پر لڑنے والے فریقین کا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا لیکن عوام اور عوامی اداروں کا بھرتہ بن جاتا پے جس کے نتیجے میں نہ تو ادارے مضبوط ہو پاتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت۔ نتیجتا معاشرے میں نہ تو ریفارمز لائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی صحت تعلیم یا دیگر اہم میدانوں میں خاطر خواہ ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ہمارے وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کوئی صدیوں پرانی نہیں پے جس کے فہم یا ادراک کیلئے بے حد عرصہ لگے بلکہ تھوڑی سی محنت اور لگن کے ساتھ ستر سالہ سیاسی اور سماجی تاریخ کو باآسانی کم سے کم پڑھا لکھا طبقہ ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا کہ ہم فطرتا سہل پسند ہیں اور مختصر سی سیاسی اور سماجی تاریخ کے اوراق کو پڑھنا بھی گراں تصور کرتے ہیں اور بوجھ محسوس کرتے ہیں اس لیئے چہروں کی تبدیلی اور انقلاب کے چورن کی پھکی کھا کر سیلف ڈینایل میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سارے عمل میں نقصان آنے والی نسلوں اور اپنے ہی بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کے نام پر ہم خود اپنے ہاتھوں اپنے مستقبل کا گلا گھونٹ کر خوش ہونے والی قوم بنتے جا رہے ہیں وگرنہ کتنا مشکل ہے اس حقیقت کو محسوس کرنا کہ شہروں کو بند کرکے مزدوروں کا روزگار چھین کر اپنی ہی املاک کو توڑ پھوڑ کر انقلاب نہ کبھی آیا اور نہ کبھی آ سکتا ہے۔ جس معاشرے میں بسنے والا تقریبا ہر فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق ٹیکس چوری سے لیکر ملاوٹ اور نوکری میں رشوت خوری یا کمیشن کھانے سے لیکر ہر جگہ اپنا اپنا مفاد عزیز رکھتا ہو وہاں انقلاب نہیں بلکہ قدرت کے عذاب نازل ہوا کرتے ہیں۔ چی گویرا انقلاب لانے کیلئے غاروں میں جا بسا تھا اور ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ مارٹن لوتھر کنگ سیاہ فاموں کے حقوق کی جدو جہد کیلئے دہائیوں لڑتا رہا نیلسن منڈیلا نے عمر کا بہت بڑا حصہ چار بائی چار کی کال کوٹھری میں گزارا۔ یہاں انقلاب اور تبدیلی کے دعوے کرنے والے تین تین سو کنال کے محلات میں آرام سے بٹیر اور تیتر کے گوشت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور مار کھانے اور مرنے کیلئے غریب اور سفید پوش آدمیوں کے بچوں کو سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔
کیا دنیا میں کوئی تبدیلی کوئی انقلاب اس طرح بھی آیا ہے کہ رہنما گلچھڑے اڑائیں اور انہیں مارنے والے ذلیل و خوار ہوں۔ انقلاب یا تبدیلی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور پھر اجتماعی سطح پر بتدریج اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہوا پے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی شخص معاشرے کے تمام مسائل ایک رات ایک مہینے یا چند سالوں میں حل کر دے۔ مسائل کا حل ایک ارتقائی عمل ہے اور چاہتے نہ چاہتے هوئے بھی وقت کی بھٹی سے نسلوں کو گزر کر ترقی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ محض نعروں یا پراپیگنڈوں کے سہارے اگر تبدیلی آتی تو لیبیا مصر یا عراق میں آج دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ رومان پروری اور آئیڈیلزم اس وقت تک تعمیری ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ہالوسینیشن میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسی صورت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ۔ دوسرا راستہ انقلاب اور تبدیلی کے نام پر استعمال ہو کر اپنے آپ کو پرفریب خوابوں میں مبتلا رکھنے کا ہے۔ سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کسی بھی قسم کے شارٹ کٹ سے نہ تو تشکیل پاتا ہے اور نہ ہی مضبوط ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات پر اثر انداز ہونے والے پراپیگنڈہ اور خوابوں کے سوداگروں سے بچ کر ہی وطن عزیز میں آنے والے کل کے بہتر ہونے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔