آزادی کا مطلب کیا ہوتا ہے اس کا جواب ایک عام فہم سی بات ہے۔ ہر انسان اپنے نظریات رکھنے اپنی منفرد سوچ رکھنے اور ان کے تحت اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آزادی کی نعمت صرف اشرافیہ کو حاصل ہے۔ باقی کروڑہا انسان اس نعمت سے محروم ہیں۔
زات پات قومیت مذہب پرستی فرقہ پرستی روایات کو جبری طور پر قبول کروا کر ہماری نسلوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اور یہ باور کروا دیا جاتا ہے کہ ان معاملات میں نہ تو سوالات اٹھائیں جائیں اور نہ ہی عقل و دلیل کو ان معاملات میں آنے دیا جائے۔ یہ فارمولا قریب پندرہ برس قبل تک تو بے حد کامیاب تھا لیکن پھر انٹرنیٹ کی عام آدمی تک رسائی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے دنیا بھر کی تہذیبوں سے روشنائی نے اس فارمولے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔
جدید دنیا میں ہونے والی تمام تر تبدیلیاں جب ہمارے پڑھے لکھے ذہنوں کے دماغ میں سوال اٹھانے لگیں تو ان افراد نے سوالات اٹھانے شروع کیئے۔ اور اپنے سوالات و خیالات کیلئے ان افراد کو سب سے مناسب پلیٹ فارم سوشل میڈیا کی صورت میں ملا۔ سوشل میڈیا چونکہ ہر عام و خاص کی دسترس میں ہے اور آپ بلا جھجک اس پلیٹ فارم سے مختلف نظریات و افکار کو دلائل اور منطق کے سہارے چیلنج کر سکتے ہیں اس لیئے یہ پلیٹ فارم خیالات جزبات احساسات بیان کرنے کا سب سے موضوع ذریعہ بن گیا۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ٹی وی پروگرام میں کوئی اینکر یا صحافی اپنی من مانی کرے یا زرد صحافت کا مظاہرہ کرے تو فورا سوشل میڈیا پر اس پر طنز کا طوفان امڈ آتا ہے۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر دانشوروں سے لیکر سیاستدان اور سرکاری اداروں سے لیکر مولوی حضرات سب اس سوشل میڈیا کے میدان میں اصل چہرے کے ساتھ بے نقاب ہو جاتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیوں نام ناد دانشوروں اور لکھاریوں اور سیاسی و مذہبی اشرافیہ کو سوشل میڈیا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
وطن عزیز میں قدامت پسند حلقوں کی روز اول سے کوشش رہی ہے کہ معاشرے میں کرٹکل تھنکنگ اور آبجیکٹو تھنکنگ کو قطعا عام نہ ہونے دیا جائے۔ اسی لیئے یہ قدامت پسند طبقہ سوشل میڈیا کے درپے رہتا ہے۔ چونکہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے بنا جدید زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں اس لیئے یہ طبقہ انٹرنیٹ کو تو بند نہیں کر سکتا البتہ سوشل میڈیا کو بند کرنے کے درپے رہتا ہے۔
حال ہی میں اعلی عدلیہ کے ایک معزز جج نے سوشل میڈیا کو بند کرنے تک کی آبزرویشن دے ڈالی کیونکہ ان کے خیال میں توہین اور گستاخ آمیز مواد کی خاطر اس میڈیا کو بند کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ جج صاحب آبدیدہ بھی ہو گئے اور فرمانے لگے کہ کیا حکومت نے اور میں نے روز محشر خدا کو جواب نہیں دینا ہے۔ اچھی بات ہے کہ جج صاحب کے دل میں خوف خدا ہے۔ ایسا توہین آمیز مواد جو صرف اور صرف مذاہب کا تمسخر اڑانے کیلئے شائع ہوتا ہے اس کو بند بھی ہونا چائیے لیکن جج صاحب کو یہ بھی سوچنا چائیے کہ عدالتوں میں سالہا سال سے دھکے کھاتے انصاف کے متلاشی سائلوں کو انصاف نہ مل پانے پر کیا روز محشر کو ان سے یا ان کے ساتھیوں سے باز پرس نہیں ہوگی۔
خیر جج صاحب پر خود تین مختلف اقسام کے مقدمات قائم ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہیں اس لیئے اس پر زیادہ بات مناسب نہیں۔ لیکن چوہدری نثار صاحب کی پھرتیاں اور اردو صحافی و دانشور جو کہ بنیادی طور پر زیادہ تر قدامت پسند ہوتے ہیں ان کا سوشل میڈیا پر پابندی کے امکانات کو سن کر خوش دکھائی دینا دراصل اردو ادب و صحافت اور ملا و شدت پسند تنظیموں کے گٹھ جوڑ کی جانب واضح اشارہ دیتا ہے۔
اپنے اپنے شعبہ جات میں تسلط قائم رکھنے کیلئے اس قدامت اور شدت پسند الائینس کو ایسی آوازوں اور ایسے پلیٹ فارمز کو بند کروانا ازحد ضروری ہے تا کہ معاشرے پر جبری طور پر قدامت پسندی اور شدت پسندی کو تھوپا جا سکے۔ دراصل سوشل میڈیا پر آن لائن اخبارات انٹرنیٹ ٹی وی بلاگز کی ویب سائیٹس نے روایتی میڈیا کی ریٹنگ کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے اور ان کے پھیلائے ہوئے پراپیگینڈے کو بھی اچھی طرح عیاں کیا ہے۔
دوسری جانب مولوی اور شدت پسند حضرات کو بھی سوشل میڈیا کے باعث ایسے چبھتے سوالاات اور دلائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو روایتی میڈیا پر کبھی بھی نہیں پوچھے جاتے۔ حقائق کو مسخ کرنے کا دھندا بھی اس سوشل میڈیا نے قریب قریب بند کروا دیا ہے۔ جو بات ہمارے پالیسی ساز سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ اب دنیا کا مستقبل ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اس وقت عصر حاضر کے سب سے بڑے ایسے پلیٹ فارمز ہیں جہاں دنیا کے اربوں افراد رنگ نسل تہزیب مذہب سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں بنا کسی قدغن کے ایک دوسرے تک اپنے نظریات پہنچاتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے دنیا میں ایک نئی تہزیب کا آغاز ہے ایک ایسی تہذیب جو کسی بھی تعصب کو مانے بنا اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دنیا میں رائج فرسودہ روایات اور خیالات کو ختم کرتی جا رہی ہے۔
انسان نفسیاتی طور پر اپنے قائم شدہ عقائد اور خیالات کو کبھی بھی غلط ثابت ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ ان عقائد روایات اور اقداروں، کو بچانے کیلئے انسان تشدد جنگ و جدل اور مختلف اقسام کے جبر کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن انسانی تہزیب کی تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی نظر آرہی ہے کہ ہر نئی تہزیب پرانی تہذیبوں کے فرسودہ نظریات کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جاتی ہے۔
یہ قدرت کا ارتقائی عمل ہے جس کو روکنا انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ دنیا میں اسوقت نئی تہزیب کے علم بردار مارک زکربرگ، بل گیٹس، اور سٹیون ہاکنگز جیسے لوگ ہیں نہ کہ جہاد اور مذہب کے نام پر اپنی دکانیں چمکاتے شدت پسند۔ بطور معاشرہ ہم جس قدر جلد اس نئی تہذیب کو قبول کرتے ہوئے اپنے معاشرے سے حبس و جبر اور جہالت کی فضا کا خاتمہ کریں گے اتنا ہی یہ اقدام ہمارے آنے والی نسلوں کی دنیا میں ترقی کرنے کیلئے اہمیت کا حامل ہوگا۔ دنیا میں طاقت صرف دلیل اور منطق کی قائم رہتی ہے باقی تمام طاقتوں کا توازن وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
منطق کا تقاضہ یہ ہے معاشرے میں دنیا کی نئی تھیوریوں نظریات اور خیالات کو ہر پلیٹـ فارم سے پنپنے کا موقع دیا جائے اور وہ بونے جو مذہب سیاست صحافت اور رکن پر اجارہ دار بن کر بیٹھیں ہیں ان سے نجات حاصل کی جائے۔ اس جدید تہزیب پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے سے نہ تو اس کا ارتقا رکنے پائے گا اور نہ ہی لوگوں کو پابندی کا شکار کیا جا سکے گا البتہ شدت پسندی کا تعفن معاشرے میں پھیلتا ہی چلا جائے گا۔ قدغنیں لگانے کے بجائے اپنی پالیسیوں نظریات اور روایات کو لٹمس ٹیسٹ پر پرکھنے کی اشد ضرورت ہے۔