قیام پاکستان سے لے کر آج کی تاریخ تک ہم اور تو کسی بھی چیز میں خودکفیل نہ ہو سکے البتہ غداری و کفر کے فتوے بانٹنے میں خود کفیل ضرور ہو گئے۔ وطن عزیز میں جہاں بسنے والے زیادہ تر باشندے مزاجا سہل پسند ہیں اور علم و تحقیق کے بجائے سنی سنائی باتوں پر رائے قائم کرتے ہیں ایسے لوگوں کو باآسانی وطن سے غداری یا توہین مذہب کے نام پر اکسا کر کوئی بھی مقصد حاصل کرنا طاقتور اداروں اور گروہوں کیلئے زیادہ بڑی بات نیں ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں دشمنوں کو قابو میں کرنے یا مخالفین کو راستے سے ہٹانے کیلئے توہین مذہب اور غداری کے فتووں اور الزامات کا الزام نہ صرف انتہائی عام سی بات ہے بلکہ معاشرے میں اسے باآسانی قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ آپ کسی بھی شخص پر توہین یا غداری کا الزام یا مقدمہ تھوپ دیجئے اس شخص کا جینا کم سے کم پاکستان میں د شوار ہو جائے گا۔
ان حساس موضوعات پر بولنا یا تحریر کرنا بھی جان جوکھوں میں ڈالنے والی بات ہے یہی وجہ ہے کہ میرے اکثر ہم پیشہ دوست اوردانشور ان موضوعات پر تحریر کرنے یا بولنے سے کتراتے ہیں۔ آج کل وطن عزیز میں پھر سے توہین اورغداری کے فتوے اور اسناد تقسیم کرنے کا موسم آیا ہوا ہے۔ سانحہ ایبٹ آباد اور اس سانحے کی کمیشن کی رپورٹ کو لیکر پیپلز پارٹی عسکری اداروں اور ایجنسیوں پر انگلیاں اٹھاتے دکھائی دیتی ہے اور دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کو غدار قرار دلوانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ایک جانب سیاست میں مکمل طور پر ناکام پونے کے بعد چند نابغے وزیراعظم نواز شریف کے ہولی کے موقع پر دئیے گئے بیان کو لے کر توہین کا شور مچاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور ایک جانب ریاستی اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گو یہ تینوں واقعات یا اقدامات مختلف سیاسی و سماجی حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان تینوں میں ایک قدر مشترک ہے۔ ان تمام واقعات میں فریقین ایک دوسرے کو غدار اور مرتد قرار دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔
ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بوجھ پیپلز پارٹی یا سیاسی قیادت پر ہرگز نہیں ڈالا جا سکتا۔ جن اداروں کے زمہ سیکیورٹی کے فرائض تھے وہی ادارے اس کے جوابدہ بھی ہیں۔ البتہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ویزے فراہم کرنے کا جو سنگین الزام سابق سفیر حسین حقانی اور پیپلز پارٹی کی حکومت پر ہے اس کی حقیقت کو جانچنے کیلیے بھی فوری طور پر ایک کمیشن بنانے کی ضرورت ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ ویزے کیوں اجرا کہئے گئے اور اس کے پیچھے کیا مقصد کارفرما تھا۔ لیکن اس مسئلے کو لے کر ایبٹ آباد آپریشن کی انکوائری رپورٹ کو پس پشت نہیں کرنا چائیے اور رپورٹ کو جلد سے جلد جاری کر دینا چائیے تا کہ عوام حقائق سے آگاہ ہو سکیں۔۔
نواز شریف کے بیان کو لے کر ان پر توہین کا الزام لگانے والے ناقدین کی بھی کسی عدالت میں گوشمالی ضروری ہے تا کہ شدت پسندی پھیلاتے ان عناصر کو روکا جا سکے۔ سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹوں پر کریک ڈاؤن بھی ہونا ضروری ہے کہ آزادی اظہار کا مطلب ہرگز بھی عقائد یا مذاہب کی تضحیک نہیں ہوتا۔ اور جو افراد بھی ان کاروائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹنا چائیے۔ لیکن توہین اور غداری کی فتوی ساز فیکٹریوں کو اب بند کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کا بھی جب جی چاہے وہ اپنے مخالف کو غدار یا توہین مذہب کا مرتکب قرار دے ڈالے۔
کسی بھی شخص کو صفائی کا موقع دئیے بنا غدار یا توہین کا مرتکب ٹھہرانا یا محض اپنے فائدے کیلئے رائے عامہ کے جزبات کو مشتعل کرنا نہ صرف سنگین جرم ہے بلکہ معاشرے میں شدت پسندی کے فروغ کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ اس وقت معاملہ کچھ یوں ہے کہ جس کے جی میں جب آتا ہے کسی پر بھی غداری یا توہین کا الزام لگاتا ہے اور سیاسی طور پر کیریکٹر اساسینیشن سے لیکر معاشرے میں زندہ رہنے کا حق ھی چھین لیتا ہے۔ راقم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ دنیا اب ایک نئی تہذیب میں ڈھل چکی ہے جبر یا طاقت کی بنا پر نظریوں کو مٹانا تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔
قدرت ہر انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دیتی ہے اور مختلف انداز سے دیتی ہے۔ اور اس کے پیچھے بھی منطق کارفرما ہے اگر دنیا کے تمام انسان ایک جیسا سوچنا شروع کر دیں تو نہ تو دنیا میں کوئی نئی ایجاد ہو سکتی ہے نہ ہی کوئی نئی تحقیق اور نہ ہی فرسودہ خیالات روایات و نظریات کو ختم کرتے ہوئے جہالت کے اندھیروں کو مٹایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے انسان گزرے ہیں ان سب نے مروجہ روایات و نظریات سے بغاوت کرتے ہوئے نئے نظریات تخَلیق کیئے۔
اگر آئن سٹائن، نیوٹن یا سٹیفن ہاکنگز یا میڈم کیوری سب کی طرح سوچنا شروع کر دیتے تو آج ہم ساینس کی نت نئی ایجادات نہ دیکھ رہے ہوتے علاج و معالجے سے مستفید ہوتے ہوئے بیماریوں کو شکست نہ دے پاتے۔ دنیا میں نت نئی ترقی اور ایجادات ہمیشہ اختلاف رائے کرنے والوں اور عام روش سے ہٹ کر سوچنے والوں کے ہی مرہون منت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انسانی شعور میں اضافہ ہوا مہذب معاشروں نے اختلاف رائے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوے اسے انسانوں کا ذاتی حق تسلیم کیا۔
لیکن ہمارے ہاں اختلاف رائے کو آج تک ایک گناہ کبیرہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں بسنے والا کوئی انسان ریاست یا ریاست کے اداروں کی کسی پالیسی یا اقدام سے خوش نہیں ہے اور اس کا اظہار تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے کرتا ہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی بنا پر محض اختلاف رائے کے جرم میں غدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کسی فرد کے ذہن میں رسوم و رواج یا نظریات دوارے سوالات ہیں اور وہ مناسب انداز میں ان سوالات کا اظہار کرتا ہے جواب طلب کرتا ہے یا اپنا نظریہ پیش کرتا ہے تو کسی بھی صورت وہ وطن یا معاشرے سے غداری کا مرتکب نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
جہاں تک بات عقائد اور مذاہب کی ہے تو دنیا میں پیدا ہونے والا ہر شخص اپنا عقیدہ یا مذہب اختیار کرنے میں مکمل آزاد ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کے عقائد یا مذہب کی تضحیک کرے۔ ویسے بھی ان نازک معاملات کیلئے مناسب پلیٹ فارمز کا ہی استعمال کیا جائے تو یہ معاشرے میں بسنے والے تمام افراد کیلئے اچھا ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سمجنے کی ضرورت ہے کہ عقائد و مذاہب سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں اور ہماری طرح دوسرے بھی ان سے اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں۔
بطور مسلمان جیسے میں توقع رکھتا ہوں کہ میرے مذہب یا میری مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال نہ ہوں اور میرے مذہب یا عقیدے کو عزت و تکریم سے دیکھا جائے اسی طرح ہندو سکھ عیسائی یہودی یا دیگر مذاہب اور عقائد رکھنے والے بھی بالکل یہی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن اگر بطور مسلمان میں دیگر تمام مذاہب پر طنز و تنقید کے نشتر برساوں گا تو یقینا میرے مذہب اور عقیدے پر بھی جواب میں اسی قسم کے طنز و تنقید کے نشتر برسائے جائیں گے۔ میں اگر اپنے ہی ہم مذہبوں کو کافر قرار دیتا پھروں گا تو پھر وہ بھی مجھے کافر قرار دینے پرمصر نظر آئیں گے۔
عقائد کا معاملہ اگر رب کریم پر چھوڑ کر دوسروں کے عقائد پر نظر رکھنے کے بجائے صرف اپنے ہی اعمال کو بہتر بنانے پر کوششیں مرکوز کی جائیں تو معاشرہ قدرے بہتر اور پر امن ماحول کی جانب سفر کا آغاز کر سکتا ہے۔ ایسے افراد جو صرف اور صرف مقدس ہستیوں یا مزاہب کی تضحیک کرنے کیلئے کسی بھی قسم کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا ضرور دینی چائیے۔ لیکن ریاست کو ایسے پلیٹ فارمز خود مہیا کرنے چاہیئں جہاں ایسے اذہان جو ان نازک معاملات پر کسی قسم کے سوالات رکھتے ہیں اور تہزیب کے دائرے میں انہیں پیش کر سکتے ہیں ان کو مکالمے کے مواقع ملیں اور بجائے سوشل میڈیا پر مذاہب کی تضحیک کے ان کو جاوید غامدی یا ان جیسے دیگر پڑھے لکھے مذہبی سکالرز سے بات چیت کا موقع ملے اور تعمیری مکالمے کا آغاز ہو سکے۔
انسانی شعور جوں جوں ترقی کرے گا توں توں ریاستی امور سے لیکر مذہبی امور کے بارے میں سوالات اٹھائے گا۔ اور سوال اٹھانے کو ہی اگر جرم قرار دے دیا جائے تو معاشروں میں تخلیق یا تحقیق کے محاذ ویران رہ جاتے ہیں۔ ارباب اختیار کو اب سنجیدگی کے ساتھ معاشرے میں ہر موضوع پر صحت مند مکالمے کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تا کہ آنے والے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے صحت مند اذہان کی نشونما کی جا سکے۔