سنسنی خیزی، ہیجان انگیزی اور مرچ مصالحے کے ساتھ خبریں اور کہانیاں ڈھونڈنے والے معاشرے میں ایک من گھڑت کہانی ایک عقل و فہم کے منافی بات یا نظریہ بیچنا کس قدر آسان ہے اس کا اندازہ آپ ڈاکٹر شاہد مسعود کے تازہ ترین بھونڈے اور مضحکہ خیز قسم کے خود ساختہ انکشافات سے اچھی طرح لگا سکتے ہیں۔ موصوف نے نہ صرف ٹی وی ٹاک شو کے دوران زینب کے مجرم عمران کو بین الاقوامی مافیا کا ممبر بنا ڈالا بلکہ حکومت پنجاب کے ذمہ داروں کو بھی اس مافیا کا حصہ قرار دے ڈالا۔ نادرا کے بنک ویریفیکیشن ڈاکیومنٹ کے لاگز کو ڈاکٹر صاحب نے مجرم کے بنک اکاونٹ قرار دیتے ہوئے اس کے بنک اکاونٹ میں کڑوڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز کا بھی ڈھنڈورا پیٹ ڈالا۔ بات یہیں نہیں رکی بلکہ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ معزز اعلی عدلیہ نے اس بھونڈی زرد صحافت کو اہمیت دیتے ہوئے شاہد مسعود کو عدالت بھی طلب کر ڈالا اور ان سے اس ضمن میں ثبوت بھی مانگے اور ان افراد کے نام بھی جو ڈاکٹر صاحب کی خودساختہ گھڑی گئی کہانی کے مطابق بین الاقوامی مافیا کا حصہ اور مجرم عمران کے سرپرست اعلی تھے۔ اس کے بعد رہی سہی کمی بین الاقوامی میڈیا کی چند ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلانے کے شوقین حضرات نے اس خبر کو جنگل میں آگ کی مانند پھیلا کر پوری کر دی۔
اس تمام صورتحال کے بعد سمجھ نہیں آرہی کہ اس پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔ وطن عزیز میں کوئی بھی چورن فروش اٹھتا ہے اور اپنی مرضی کی ایک تخیلاتی کہانی پیش کرتا ہے اور عوام سمیت اعلی ادارے اس کے پراپیگینڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے کسی زمانے میں پنتیس پنکچرز کی ٹیپ والا مشہور شوشہ چھوڑا تھا لیکن عدالت میں وہ جھوٹ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ ایک دہائی سے قیامت کی پیشن گوئیوں کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے جانے کی تاریخیں بھی دیتے ہیں اور ہر بار ان پیشن گوئیوں کے غلط ثابت ہونے کے بعد کمال ڈھٹائ سے اگلی پیشن گوئی یا اگلے جھوٹ کو پھیلانے کیلئے بھرپور مہارت و توانائی کے ساتھ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں اکیلے فرد نہیں ہیں جنہیں پراپیگینڈہ پھیلانے کے فن میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے قبیلے میں لاتعداد جوتے چمکانے کے ماہر پیراشوٹ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار شامل ہیں۔ ان تمام افراد نے صحافت کے لبادے میں ٹی وی سکرینوں کا سہارا لیتے ہوئے گزشتہ کئی برس سے افواہوں، بہتان تراشی اور جھوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ یہ حضرات اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں جذباتی باتوں، سنسنی خیزی اور چٹ پٹی کہانیوں کو بیچنا انتہائ آسان ہے اس لئیے ان کے جھوٹ اور پراپیگینڈے کا کاروبار دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔
زینب کے قتل کو ان زرد صحافت کے استعاروں نے جس بے دردی سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور میڈیا ریٹنگ کیلئے استعمال کیا ہے اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کا واحد مقصد محض اپنے سیاسی و پس پشت آقاؤں کو کسی بھی قیمت پر خوش کرتے ہوئے روپے پیسے اور آسائشات کا حصول ہے۔ ان حضرات کے ناظرین بھی کمال ہیں جو محض سیاسی مخالفت اور چٹ پٹی کہانیوں کے شوق میں نہ صرف بچگانہ و غیر دانشمندانہ نظریات و کہانیوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں بلکہ صدق دل سے پراپیگینڈے اور جھوٹ کو ہر ممکن طریقے سے آگے تک پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ زینب کے قتل کا مجرم ایک ذہنی مریض ہے جو کبھی مزدوری اور کبھی چوری چکاری کر کے اپنی معاشی ضروریات پوری کرتا تھا۔ سپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار یہ شخص اگر بین الاقوامی مافیا کارندہ تھا اس کے زیر استعمال لاتعداد بنک اکاؤنٹس تھے تو پھر اسے کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ چوری چکاریاں کرتا۔ یاد رہے اس کی چوری چکاریوں کی گواہی اس کے اہل محلہ اور اہل علاقہ دے چکے ہیں۔ لیکن کمال ہےان خواتین و حضرات پر جو ڈاکٹر شاہد مسعود کی خود ساختہ تھیوری پر اس حقیقت کو جاننے کے باوجود بھی ایمان لے آئے۔
بنا کسی تحقیق کے یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ مجرم وڈیوز بنانے کیلئے کوڑے کے ڈھیر اور زیر تعمیر مکانات کو استعمال کرتا تھا جبکہ ایک طرف اس کی پشت پر بین الاقوامی طاقتور مافیا موجود تھا جو مفروضوں کے مطابق اربوں ڈالر اس مکروہ دھندے سے کما رہا تھا لیکن مجرم عمران کو اس قدر وسائل ہونے کے باوجود کوئی گھر یا کمرہ اس مزموم مقصد کی تکمیل کیلئے نہیں دلوا سکتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ایسا ٹی وی چینل جس کا بنیادی دھندہ کسی زمانے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی کی آڑ میں خود پورنوگرافی کی ویب سائٹس چلانا ہوا کرتا تھا وہ چینل بھی ڈاکٹڑ شاہد مسعود کی اس من گھڑت تھیوری کو پھیلانے میں پیش پیش تھا۔ اپنی مرضی اور سوچ کے عین مطابق حقائق کے منافی جھوٹ، کو سچ سمجھنا ایک لت کی مانند ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی بہتات ہے جو سچ صرف اسے سمجھتے ہیں جو ان کے نظریات و خیالات یا عقائد کے عین مطابق ہو۔ جب تک معاشرے میں یہ لت موجود رہے گی اس کی تسکین کی خاطر مفروضوں، جھوٹی کہانیوں اور پراپیگنڈے کے دم پر معاشرے میں لاشوں تک کو تماشہ بنا کر سیاسی مفادات اور ٹی وی ریٹنگ بڑھا کر منافع اور آسائشات حاصل کرنے کا، سلسلہ جاری رہے گا۔ کیونکہ بہر حال اس جھوٹ اور فریب کے دھندے کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ معاشرے کے وہ افراد ہیں جو اس کی طلب اور لت کا شکار ہیں۔