لاہور میں دھماکہ ہوا اور بارود کی بو نے آن ہی میں مال روڈ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چند لمحات میں ہی 16 کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لاشوں کی گنتی ہمیشہ کی طرح جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ پالیسی سازوں کا فوٹو سیشن بھی جاری رہے گا۔ لاہور شہر میں ایک ایسے وقت پر دھماکہ کرنا جب پاکستان سپر لیگ کا فائنل بالکل قریب تھا واضح اشارہ دیتا ہے کہ طالبان اس بساط میں محض ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ان کی پشت پر موجود عالمی قوتوں نے ایک بار پھر انہیں استعمال کیا اور پاکستان میں نہتے افراد کے خون سے ہولی کھیل کر ایک بار پھر کھیلوں کی سرگرمیوں کو روک دیا گیا۔
یہ ایک فطری امر ہے کہ ضیاالحق اور مشرف کی طالبان سے ہمدردی اور جہاد کو فروغ دینے کی شدت پسندانہ اور بے وقوفانہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارا ملک خود ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے میں ابھی مزید نہتے اور بے قصور انسانوں کا خون بہے گا۔ لیکن جو بات فہم سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ کیوں آج بھی جہادیوں اور شدت پسند تنظیموں کو ریاست اور ریاستی اداروں کی خاموش تائید حاصل ہے۔ نہ ہی اس بات کی سمجھ آرہی ہے کہ شدت پسندانہ سوچ کے تدارک کیلئے کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔ کیوں کہ کم سے کم کوئی بھی ذی شعور شخص اب یہ بات نہیں مان سکتا کہ شدت پسند بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے۔
مولانا سمیع الحق ہو یا مولانا عبدالعزیز، حافظ سعید ہو یا مولانا مسعود اظہر، جماعت اسلامی ہو یا کالعدم سپاہ صحابہ یا تحریک نفاز فقہ جعفریہ۔ یہ تمام تنظیمیں آزادانہ اور کھلے عام شدت پسندی کا پرچارکرکے دہشت گردی کی اس صنعت کو رواں دواں رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں یا شخصیات پر ہاتھ ڈالنا ریاست کیلئے ناممکن نہیں ہے لیکن اس کے لیئے سب سے پہلے اپنے بنائے ہوئے خود ساختہ شدت پسند بیانیے کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اپنی نوجوان اور آنے والی نسلوں سے معافی مانگ کر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہم نے جو دفاعی مذہبی اور قومی بیانیے تشکیل دیئے وہ تمام کے تمام خود ساختہ اور نظریہ ضرورت کے تحت تھے جن کا دنیا کی حقیقتوں سے دور دور کا بھی لینا دینا نہیں تھا۔ مسئلہ اب یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ آخر کو کون پہلے بڑھ کر غلطی تسلیم کرے۔ کیونکہ غلطی تسلیم کرنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور شاید یہ غلطی جس کا ذکر ہم کر رہے ہیں یہ ایک ایسا جرم ہے جو لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنا چکا ہے۔ اور کڑوڑوں انسانوں کو آج کے زمانہ جدید میں زندہ رہنے کیلئے ذہنی و فکری طور پر بانجھ بنا چکا ہے۔
وطن عزیز آزاد ہوا اور پھر جناح کے بیانیے کو ہائی جیک کرکے ایسے بیانیے عوام پر ٹھونسے گئے کہ خدا کی پناہ۔ کشمیر کے تنازعے کو لیکر بھارت سے جنگیں پھر مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا، سعودیہ ایران تنازعے میں فریق بننا، عرب دنیا کی لڑائیوں میں حصہ ڈالنا، افغانستان اور روس کے معاملے میں امریکہ سے ڈالرز لیکر روس کے خلاف جنگ کرنا پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم کروانا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ سے ہی ڈالرز لیکر افغانستان میں پھر کود پڑنا اپنے بنائے ہوئے طالبان میں سے چند کو دوست اور چند کو دشمن سمجھنا۔
کشمیر میں پراکسی جنگ لڑنا اور بدلے میں بلوچستان کو آگ و خون میں جھونک دینا۔ یہ جرائم اس قدر طویل اور بھیانک ہیں کہ لفظ سیاہ بھی ان کے آگے بہت چھوٹا لگتا ہے۔ یہی نہیں وطن عزیز میں مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے ہی ہموطنوں اور دنیا بھر سے نفرت کرنا، زندگی کی رونقوں اور مسرتوں کو تیاگنے کا درس دینا شدت پسند فرقہ وارانہ اور جہادی تنظیموں کی سرپرستی کرکے جہادی مائنڈ سیٹ تیار کرنا جیسے تمام جرائم سانحہ لاہور اور دیگر دہشت گردی کے واقعات کا جواز بنتے ہیں۔ جب تک یہ بیانیے تبدیل نہیں ہوں گے دہشت گرد اور شدت پسند پیدا ہونا ختم نہیں ہوں گے۔
شدت پسندی کا یہ ٹائم بم ہم نے وطن عزیز کے قائم ہونے کے چند سال بعد ہی تیار کر لیا تھا اور آج یہ ٹائم بم وطن عزیز میں کروڑوں شدت پسندوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کتنے بموں کو ناکارہ بنائیں گے کہ ریاستی پراپیگننڈہ اور بیانیے کے زیر اثر پروان چڑھنے والے دماغ دلیل اور منطق جیسے الفاظ سے نابلد ہیں۔ اور ستم ظریفی دیکھئے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی اس سوچ کا شکار ہے۔ یہ چلتے پھرتے کروڑوں انسان نما بم جو ریاستی بیانیے اور پالیسیوں کی وجہ سے تیار ہوئے انہیں ناکارہ بنائے بغیر وطن عزیز سے کبھی بھی دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے ریاست ستو پی کر سوئی پڑی ہے۔ خود سینکڑوں محافظوں کے حصار میں گھومنے والے ارباب اختیار کو اس مسئلے کو ختم کرنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے۔ زندگی کی رمق سے بھرپور تمام تہوار یا سرگرمیاں بے حیائی یا کفاروں کی تہزیب قرار دے کر پابندی کا شکار کر دیئے جاتے ہیں اور پھر بیانات داغے جاتے ہیں کہ دیکھا ہم اپنی تہزیب کو کس طرح بچانے میں کامیاب هوئے۔
اسی لاہور دہشت گردی کے سانحے کو دیکھ لیجیئے، نیشنل ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی مخبری میں مصروف رہے اور دہشت گرد اپنا کام دکھا گئے۔ فیصلہ آپ خود کر لیجئے پھولوں اور۔ محبت کے دن کو منانے والوں کو روکنا ضروری ہے یا پھر بارود اور خون میں ڈوبی لاشیں دینے والوں کو۔ اسی طرح جنت کی آرزو میں دنیا کو جہنم بنانے والوں کی تقلید ضروری ہے یا پھر دنیا کو جنت بنانے والوں کی تقلید؟ سوال یہ نہیں ہے کہ ہم دہشت گردوں کا صفایا کیسے کریں گے سوال یہ ہے کہ اپنے اندر کے دہشت گرد مائنڈ سیٹ کو آخر کب اور کیسے تبدیل کریں گے۔ ہر سانحہ کے بعد ہم کب تک جھوٹی تسلیاں دے کر اپنے آپ کو فریب میں مبتلا کیئے رکھیں گے کہ بہتوں اور بے گناہوں کی جان لینے والے دہشت گرد مسلمان نہیں ہو سکتے۔
کب تک یہ گھسا پٹا جملہ جو اب سماعتوں میں زہر بن کے گھلتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسے بطور ڈھال استعمال ہی کرتے رہیں گے۔ وہ بے گناہ افراد جو ان سانحات میں جان سے جاتے ہیں ان کا خون کا زمہ ہمارے بنائے ہوئے جھوٹے نظریات پر بھی ہے اور ہم سب بھی ان کے قتل میں برابر کے شریک ہیں۔ جس دن ہم مذہب اور قومیت کے نعرے لگاتے دنیا کو فتح کرنے کے جذباتی اور غیر منطقی افکار نسلوں میں منتقل کرتے ہیں ہم اسی دن سانحہ لاہور جیسے لاتعداد واقعات کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ آخر کو کتنے اور بے گناہ قربان کرکے ایک عام فہم سی بات ہماری سمجھ میں آئے گی کہ دہشت گردی کا ماخذ یہی سوچ ہے جسے ہم خود اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔
یہ وطن کیا ہم نے اپنے ہی ہموطنوں کی خون کی ہولی کھیلنے کیلئے حاصل کیا تھا۔ کیا ہماری نظریاتی اساس تلوار اور بندوق کے گرد گھومتی تھی۔ ایسا تھا تو بانیان پاکستان ہمارے قومی جھنڈے میں سبز اور سفید رنگ کے ساتھ چاند تارہ نہیں بلکہ بندوق اور تلوار کا نشان بناتے۔ ہم نے یہ وطن کیا عربوں اور امریکہ کی پراکسی جنگیں لڑنے کیلئے حاصل کیا تھا؟ ایسا تھا تو جناح نے کیوں کبھی اس کا ذکر نہیں کیا؟ دفاع کے نام پر قائم بیانیہ ہزاروں بچوں اور معصوموں کو نگل گیا مشرقی پاکستان کو بھی علحدہ کر ڈالا لیکن آج تک اسی طرح قائم دائم ہے۔
کمال کی بات ہے اب بھی یہ بیانیہ دفاع کو ہی معاشرے کی بقا کا ضامن سمجھتا ہے۔ مذہبی بیانیہ آج بھی جہاد قتل دنیا پر غلبہ کی جھوٹی کہانیاں پیش کرتا ہے۔ قتل کو بہادری اور جہاد کو فرض قرار دیتا یہ بیانیہ یہ بھی دیکھنے سے قاصر ہے کہ جہاد اور قتل صرف اور صرف ایک دوسرے کے خلاف ہو رہا ہے۔ یہ بیانیہ قتل جہاد اور کفار کو نیست و نابود کرنے کا سبق معاشرے میں دیتا ہے اور پھر دہشت گردوں کو خود ہی پیدا کرکے اپنے ہی بچے ان کے ہاتھوں مروا کر اعلان فرماتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
معاشرے میں بسنے والی اکثریت ان دونوں بیانیوں سے متاثر ہو کر فکری و نظریاتی اساس بناتی ہے اور پھر ایک دوسرے کو کافر اور گناہ گار قرار دیتے ایک دوسرے ہی کے گلے کاٹ دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ احمدی اسماعیلی مسیحی اور دیگر اقلیتیں قابل نفرت ہیں۔ دنیا بھر کی غیر مسلم اقوام ہماری دشمن ہیں یوں بچہ ہوش سنبھالنے کی عمر تک دوسروں سے نفرت کرنا سیکھ جاتا ہے۔ اپنے سوا ہر کسی کو کافر یا گمراہ سمجھتا ہے اور پھر انہی بچوں میں سے دہشت گرد اور ان کے معاونین پیدا ہوتے ہیں جو جنت اور حوروں کی لالچ میں اس معاشرے اور دنیا کو جہنم بنا ڈالتے ہیں۔ کیا یہ سیدھا سا کلیہ سمجھنا اتبا مشکل ہے کہ ہم ان تمام سانحوں کے بعد بھی بچوں کے ذہنوں میں نفرت اور شدت پسندی کے بیج بونا نہیں چھوڑتے۔
سانحہ لاہور اور دیگر سانحات میں اجڑنے والی ماوں کی گودوں کا ذمہ دار یہ رویہ ہے جسے ہم ترک نہیں کرتے تو پھر ہمیں ان ماوں سے جھوٹی ہمدردی دکھانا بھی چھوڑ دینی چاھیے۔ ویسے بھی دنیا میں نہ تو کوئی لفظ ایسا تخلیق ہو سکا ہے جو کسی ماں کو اس کے لال کے ہمیشہ کیلئے چھن جانے پر صبر دے سکے اور نہ ہی کوئی ایسا مرہم جو ماوں کی سونی گودوں کے زخم پر مرہم رکھ سکے۔ اور پچھلے 70 برسوں سے ہم نے لفاظی کے علاوہ اور کیا بھی کیا ہے۔ سانحہ لاہور میں جاں بحق ہونے والے افراد کو ایسا کونسا دفاعی مذہبی بیانیہ یا سوچ ہے جو زندگی واپس دلوا سکے۔
ان کے لواحقین کے آنگنوں کو کونسا ایسا میڈل یا انعام ہے جو دوبارہ سے ہنستا بستا اور زندگی کے قہقہوں سے پھر آباد کر سکے۔ لیکن ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہم بہت ہوا تو پھر سے کوئی نیا گانا بنا کر دشمن کو موسیقی کے میدان میں شکست فاش سے دوچار کر دیں گے۔ کچھ دن موم بتیاں جلا کر اور دعائیں کروا کر پھر سے اپنی معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں گے۔ پھر سے کافر کافر کھیلیں گے پھر سے دنیا کو نیست و نابود کرنے کے طریقے ڈھونڈے گے پھر سے اپنے بچوں کو اپنی ملک کی اقلیتوں اور دنیا کی غیر مسلم اقوام سے نفرت کرنا سکھاتے رہیں گے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو نفرت کے بیج بو کر محبتوں کی فصلیں کاٹنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ دنیا کو تباہ کرنے کی خواہش لے کر اپنے شہروں اور گلیوں کو ہنستا بستا اور پر امن دیکھنا چاہتے ہیں۔ یا تو اپنے جھوٹے افکاروں کے بتوں کو پاش پاش کیجئے یا پھر سانحہ لاہور جیسے دہشت گردی کے مزید واقعات کا انتظار کیجئے۔ لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے جہاں زندگی سے پیار کرنے والے بستے ہیں۔ ارباب اختیار اور ہم سب کو سانحہ لاہور پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے اندر کے شدت پسند مائینڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔