سیاست دانوں کی تقدیر کے فیصلے نہ تو عدالتوں میں ہوتے ہیں اور نہ ہی بند کمروں میں۔ سیاست دان کو پیدا بھی عوامی تائید اور حمایت کرتی ہے اور اس کا خاتمہ بھی عوام کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعے سولی تو چڑھایا گیا لیکن اس کی سیاست اور نظریات کو آج تک ختم نہ کیا جا سکا۔ بی بی کو قتل تو کروایا گیا لیکن نہ تو اس کی جماعت ختم ہو سکی اور نہ ہی سیاست۔
مشرف نے 1999 میں پوری ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے نواز شریف اور ان کی جماعت کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ نواز شریف نے اپنی سیاست کو جس کامیابی سے تبدیل کرکے اپنی جماعت کی جڑیں عوام میں مضبوط کیں اور بین الاقوامی تائید حاصل کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک تبدیلی کرنا شروع کی تو انہیں پس پشت قوتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور آج پھر عدالتوں کے ذریعے ان کو نکالنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
معزز عدلیہ کا احترام اپنی جگہ لیکن اچانک سے عدلیہ کا پانامہ لیکس کے معاملے میں غیر معمولی دلچسپی لینا اور غیر معمولی آبزویشن اور ریمارکس اس کیس کو مزید متنازعہ بنا رہے ہیں اور اگر یہ کافی نہیں تھا تو شہر اقتدار میں ریٹائرڈ سرکاری بابوں اور صحافتی گدھ کے جوڑوں کا اکٹھا ہو کر مستقبل کی نگران حکومت میں اپنے اپنے حصے کی لابنگ کرنا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ٹی وی چینل پر جعلی دانشوروں اور حوالدار اینکرز کا حکومت مخالف پراپیگینڈہ کم سے کم پس پشت قوتوں کے بیانیے کو تقویت بخشنے کا باعث ضرور بن رہا ہے جس کے مطابق نواز شریف ہی تمام ملکی مسائل کا جڑ ہے اور اس سے جان چھڑواتے ہی پاکستان میں دودھ شہد کی ندیاں بہنا شروع پو جائیں گی۔
افواہوں کا ایسا بازار گرم ہے کہ خدا کی پناہ۔ وہ ذرائع جو اکثر اندر کی بات یا خبر دیتے ہیں اس وقت منقسم نظر آتے ہیں۔ کچھ کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی چھٹی ہو جائے گی اور کچھ ذرائع کا اصرار ہے کہ نواز شریف کو کلین چٹ مل جائے گی۔ نواز شریف رہتے ہیں یا جاتے ہیں غالبا اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن جو بیانیہ نواز شریف نے بنایا ہے اس کو سرے سے ختم کرنا ناممکن ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو پس پشت قوتوں کے لامحدود اختیارات پر سوالات کھڑے کرتا ہے اور ملکی ترقی کو معیشت سے مشروط کرتا پے۔ یہ بیانیہ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے کافی حد تک نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اسے مضبوط بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ مریم نواز بھی پس پشت قوتوں کے زیر عتاب دکھائی دیتی ہیں۔
افواہوں اور پراپیگینڈے سے ہٹ کر اگر باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو میرے جیسے ناچیز کے تجزیے کے مطابق نواز شریف کو سیاست سے باہر نکال پھینکنا ناممکن نظر آتا ہے اور پانامہ لیکس پر ثبوت ڈھونڈنا تقریبا ناممکن ہے۔ ایسے میں شاید ہی عدلیہ کوئی ایسا فیصلہ کرنے پائے جو نہ صرف تاریخ میں متنازعہ لکھا جائے بلکہ عوام کو مزید تقسیم کرنے کا بھی باعث بنے۔ ویسے بھی اگر نواز شریف کو بالفرض عدالتی چھتری کا سہارا لے کر نااہل قرار دے بھی دیا جائے تو بھی انتخابات میں ان کی جماعت کو پنجاب سے شکست دینا ناممکن ہے۔
البتہ مریم نواز کا راستہ روک کر مستقبل میں حمزہ شہباز کو اس جماعت کا سربراہ بنا کر ان سے بہتر ڈیل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنا سارا وزن مریم نواز کے پیچھے ڈال دیا ہے۔ اور صرف مریم نواز کو روکنا اب پس پشت قوتوں کیلئے ممکن نہیں رہا۔ نواز شریف سے بھلے ہی مختلف معاملات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے اور گورننس پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن ان کی سیاسی بصیرت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اگر نواز شریف نے سب کچھ جانتے بوجتے عدالت کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے تو یقینا انہیں کہیں سے گارنٹی ملی ہوگی کہ انہیں قربان نہیں ہونے دیا جائے گا یہ گارنٹی چائنہ کی بھی ہو سکتی ہے اور برطانیہ کی بھی۔
ہیلری کلنٹن کے امریکی صدارتی انتخابات جیتنے کی صورت میں نواز شریف کو امریکی آشیرباد بھی حاصل ہو جائے گا۔ یعنی نواز شریف نے اپنے خلاف ہوتی سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ کارڈ کھیلا ہے۔ اب عدالتوں سے فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں وہ اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں اور ہمدردی کا ووٹ ایسے میں انہی کی جھولی میں گرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری صورت میں ماورائے آئین اقدام ہی انتخابات کو روک سکتا ہے اور ماورائے آئین اقدام کی فی الحال کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اور اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آیا تو پھر نہ صرف یہ کہ عمران خان کی سیاست کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا بلکہ مرکز میں نواز شریف اور ان کی جماعت اگلے کئی انتخابات میں ناقابل تسخیر طاقت بن کر ابھرے گی۔ راقم نے کئی موقعوں پر تحریر کیا ہے کہ نواز شریف طیب اردغان کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس اقدام کی قیمت سے وہ نجوبی واقف ہیں شاید اسی لیئے انہوں نے اقتدار کی اس شطرنج پر پہلا وار مخالفین کو کرنے دیا ہے۔
یاد رکھیے گا شطرنج میں سٹیل میٹ کیلئے کبھی کبھار کچھ وزیر اور پیادے قربان کرنا پڑتے ہیں اور کچھ گھر (قدم) پیچھے ہٹا جاتا ہے جسے دیکھ کر اکثر مخالف اور کھیل دیکھنے والے تماشائی سمجھتے ہیں کہ وزیر قربان کرنے والا شاید ہار رہا ہے لیکن یہ چال ہوتی ہے اور مخالف جونہی اس چال کا شکار ہو کر بساط پر پیش قدمی کرتا ہے تو اسے سٹیل میٹ کرکے پوری بساط الٹ دی جاتی ہے اور دے دی جاتی ہے۔ عمران خان جیسے مہروں اور پس پشت قوتوں کی جلد بازی کی وجہ سے طاقت کی اس بساط پر نواز شریف ایک فیصلہ کون موڑ پر آ چکے ہیں جہاں وہ مخالفین کو دینے کی پوزیشن میں آتے جا رہے ہیں۔