مشرف نے جب نواز شریف کا تختہ الٹا تو اکیلے نواز شریف ہی نہیں بلکہ ان کی جماعت کے کئی رہنماوں کو کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا اور شدید جسمانی اور ذہنی اذیتوں کا شکار بنایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب نواز شریف کے بڑے بڑے رفقا نے ان سے دامن چھڑا لیا تھا۔ شیخ رشید، چوہدی شجاعت، مشاہد حسین، خورشید قصوری، اعجاز الحق یہ تمام لوگ نواز شریف کو چھوڑ کر مشرف کی گود میں جا بیٹھے تھے۔
جب 1999 میں نواز شریف حکومت پر شب خون مارا گیا اس وقت پرویز رشید پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی تھے۔ مارشل لا لگا اور پرویز رشید کو اٹھا کر جیل میں بند کر دہا گیا۔ پرویز رشید پر جسمانی اور ذہنی قسم کا جو بدترین ٹارچر کیا گیا وہ اس حد تک شرمناک تھا کہ نہ تو اسے تحریر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیاں۔ پرویز رشید نے وہ ٹارچر چپ چاپ خاموشی سے برداشت کیا اور کچھ عرصے بعد رہائی ملنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔
مشرف دور میں جس طریقے سے پرویز رشید اور ان کے خاندان کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کے بعد پرویز رشید نے ٹھان لی تھی کہ وہ پاکستان دوبارہ نہیں آئیں گے۔ لیکن میاں نواز شریف کے قریبی ساتھ اور دوستی کی وجہ سے جب نواز شریف وطن واپس آنے لگے تو نواز شریف کے بےحد اصرار کرنے پر پرویز رشید واپس آ گئے۔ پرویز رشید ایک دھیمے مزاج کے آدمی ہیں اور اپنی جماعت کے اکثر رہنماوں کے برعکس انتہائی آزاد خیال اور لبرل شخص ہیں۔ پرویز رشید کو 2013 کے عام انتخابات کے بعد انفارمیشن منسٹری کا اہم ترین قلم دان سونپ دیا گیا۔
پرویز رشید نے اس ذمہ داری کو انتہائی احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے مسلم لیگ کی قدرے کمزور میڈیا پالیسی کو نہ صرف توانا کیا بلکہ حکومتی موقف کی ہر ممکن انداز سے موثر ترجمانی کی۔ لیکن پرویز رشید صاحب بھی اپنے دیگر ساتھیوں مشاہد الہ اور جاوید ہاشمی کی مانند نہ تو اپنے ماضی کی تلخ یادوں سے دامن چھڑا پائے اور نہ ہی وہ اس ملک میں کسی بھی ادارے کی جمہوری حکومت پر بالادستی کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ پہلے دن ہی سے پرویز رشید کو ان کے نظریات اور خیالات کی وجہ سے دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ میں ناپسندیدہ تصور کیا جاتا تھا۔
پرویز رشید نے نہ صرف خاموشی سے میڈیا کے محاذ پر سول ملٹری تناؤ کے دوران ہمیشہ سول حکومت کا امیج بہتر بنایا بلکہ وہ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی میڈیا کمپینوں جو کہ شکریہ اور انقلاب پر مبنی تھیں انہیں بھی ناکام بنا گئے۔ لیکن پھر سیرل المیڈا کی خبر کا معاملہ سامنے آیا اور عسکری حلقوں کے مسلسل دباؤ کے باعث پرویز رشید سے بھی مشاہد اللہ کی مانند استعفی طلب کر لیا گیا۔ سیرل المیڈا کی کہانی اور کس کس کو لے کر ڈوبے گی یہ وقت بتائے گا لیکن پرویز رشید کو قربان کرکے نواز شریف نے ایک بار پھر دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے آگے سر تسلیم خم ضرور کیا۔
سیرل کی لیک کی جانے والی خبر میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو کہ ملک کے باشعور شہریوں کے علم میں نہ ہو۔ لیکن دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا "وقار" چونکہ اس سے مجروح ہوا اسی لیئے کور کمانڈرز کو باقاعدہ ایک اجلاس کرنا پڑ گیا کہ سیرل کو خبر دینے والوں کے سر فورا حاضر کیئے جائیں۔ گو حکومت نے ٹال مٹول سے کام لینے کی کوشش کی لیکن دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے سیاسی پیادوں کے احتجاج کے باعث دباؤ بڑھا اور دباؤ کم کرنے کیلئے پرویز رشید کی قربانی دے دی گئی۔
سیاست اور طاقت کا کھیل بڑا بے رحم ہوتا ہے اور اس بساط پر بعض دفعہ ایسے ایسے پیاروں کو قربان کرنا پڑتا ہے جن کی وفاداری یا دوستی پر رتی برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ خیر پرویز رشید کے استعفی کو لیکر اب نونہلان انقلاب خوب شور و غل بپا کریں گے اور جناب عمران خان "ہالوسینیشن" میں نواز شریف کا استعفی بھی آتا دیکھ رہے ہوں گے یا کم سے کم ٹویٹر اور فیس بک کی حد تک نونہالوں کو یقین دلوا چکے ہوں گے کہ بس اب مارشل لا کی آمد آمد ہے۔
پرویز رشید نے اپنا فریضہ خوب طریقے سے سرانجام دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیرل المیڈا کو پہنچائے جانے والی سٹوری سے قومی مفاد مجروح ہوا تو کیا اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں موجود ہونے اور مارے جانے سے پاکستان کا نام اونچا ہوا تھا؟ کیا بگٹی کے قتل پر قومی وقار کاساتھ فخر سے بلند ہوگیا تھا؟ کیا بار بار ملک کے آئین کو معطل کرکے مارشل لا لگانے سے قومی سلامتی پر کوئی آنچ کوئی حرف نہیں آیا؟ کیا کارگل سیاچن اور سقوط ڈھاکہ کے سانحات نے قومی سلامتی اور وقار کو بلند کیا؟ کیا مشرف کو بیرون ملک فرار کروانے سے قومی وقار پر کوئی آنچ نہیں آئی؟ کیا قومی سلامتی یا وقار کے تعین کرنے کا اختیار محض ایک ادارے کے پاس ہے؟ یہ سوالات گزشتہ کئی دہائیوں سے بطور قوم ہم سے جوابات طلب کرتے ہیں لیکن ہم ان کے جوابات دینے کے بجائے آنکھیں موند کر سیلف ڈینایل میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا ہمارا قومی وقار اتنا نرگسیت پسند اور نازک ہے کہ ایک معمولی سی خبر سے وہ بری طرح مجروح ہو جاتا ہے لیکن امریکی فوج کے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا؟ قومی وقار اور سلامتی کے نام پر ایوب سے لیکر مشرف نے اس قوم کو دہشت گردی شدت پسندی اور تعصب کی آگ میں جھونکا۔ اسی قومی وقار اور سلامتی کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کو کبھی کشمیر آزاد کروانے اور کبھی افغانستان میں جہاد کے نام پر پروان چڑھایا گیا جس کی وجہ سے پوری دنیا پاکستان کو آج تک دہشت گردوں کا معاون قرار دیتی ہے۔ اسی قومی سلامتی اور وقار کے نام پر جمہوری حکومتوں اور سیاستدانوں کو کبھی بھی کھل کر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
پس پشت رہ کر منتخب حکومتوں کو بلیک میل کرکے قومی سلامتی یا وقار نہ تو سربلند ہوتا ہے اور نہ محفوظ۔ ویسے بھی ڈالرز کی بھیک لے کر جنگیں لڑنے والی قومیں قومی وقار کا ذکر کرتے مناسب نہیں لگتیں۔ پرویز رشید کی جگہ یہی سٹوری اگر کسی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے افسر سے سرزد ہوئی ہوتی تو نہ تو حوالدار اینکرز کو اس پر تجزیہ کرنے کی جرات ہوتی اور نہ ہی کوئی کور کمانڈر منعقد کی جاتی۔ چونکہ پرویز رشید ایک سویلین تھا اور اس منتخب حکومت کا ترجمان تھا جسے ویسے ہی دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ میں اچھا نہیں خیال کیا جاتا اس لیئے اس کو سزا تو ملنی تھی۔ بہر حال کہ آپ کی وجہ سے ایک بار پھر واضح ہوگیا کہ ملک کی اصل باگ دوڑ کن ہاتھوں میں ہے۔