1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. تماش بین‎

تماش بین‎

پہلے وقتوں میں طوائفوں کے کوٹھوں پر دو قسم کے وں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ایک وہ جو پیسے دیکر رقص سے محظوظ ہوتے تھے اور دوسرے وہ جو کوٹھوں کے باہر کھڑے ہو کر صرف ساز و نغمہ کی آواز سن کر تسکین پاتے تھے اور کمال مہارت سے ایک دوسرے سے اس طرح بحث کرتے تھے جیسے وہ خود محفل میں موجود ہوں اور سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو۔ ی کی یہ عادت رفتہ رفتہ پکی ہوتی گئی اور گلیوں چوباروں سے پھیلتے ہوئے اجتماعی معاشرتی سوچ میں ڈھلتی گئی۔ یوں سارا معاشرہ ی کے اس شوق یا بلکہ یوں کہیئے کہ خبط میں مبتلا پو گیا۔

سڑک پر دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہوں تو ان کی لڑائی کا تماشہ دیکھنے اور اس سے محظوظ ہونے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور بجائے بیج بچاو کروانے یا پولیس کو بلانے کے بس تماشہ دیکھتے ہیں۔ حتی کہ دو جانور اگر سڑک کنارے کہیں بنیادی جبلت کا اظہار کرتے پائے جائیں تو ان کو دیکھنے یا ان کی تصاویر اور وڈیوز بنانے کو بھی اچھے بھلے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ی کا یہ مظاہرہ ہمیں ہر آن اور تقریبا ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ی کی عادت انفرادی سطح تک رہے تو سوائے وقت کے زیاں کے کچھ خاص نقصان نہیں کرتی لیکن اگر یہی عادت اجتماعی سطح پر لت کی طرح لگ جائے تو اس کا انجام معاشرے اور قوم کی بربادی تک جا پہنچتا ہے۔ اور اگر ی کا شوق امور مملکت پالیسی سازی اور سیاست تک جا پہنچے تو پھر معاشرے کوٹھوں کی مانند ہو جاتے ہیں جن کا تماشہ دنیا کے دیگر معاشرے دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اپنے گھر کو آگ لگا کر تماشہ دیکھنا نا صرف حماقت کے زمرے میں آتا ہے بلکہ ذہنی پسماندگی کی بھی علامت ہے۔

کرپشن احتساب لوٹے ہوئے پیسے واپس لانے کے نام پر کئی دہائیوں سے یہ تماشہ وطن عزیز میں جاری و ساری ہے۔ اس تماشے کو لگانے والے مداری ڈگڈگی بجاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی بندر میدان میں اتار دیتے ہیں جس کے تماشے سے لطف اندوز ہونے کیلئے بے پناہ اپنی لت کے ہاتھوں مجبور تماشہ دیکھنے آجاتے ہیں اور خوب ہنگامہ بپا کرتے ہیں۔ تاریخ سے نابلد سیاسی و سماجی حقیقتوں سے ناآشنا صرف شاہ دولہ کے چوہوں کی مانند آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے مارتے یہ آج سے کئی صدیوں پرانے معاشرے کی تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ی کے اس مہنگے شوق کی قیمت ملک کو جمہوری نظام کے پنپ نہ پانے اور معاشی طور پر اربوں روپے کے نقصان کے طور پر ادا کرنی پڑتی ہے۔

دوسری جانب ان شاہ دولہ کے چوہوں کی وجہ سے دہائیوں پرانا ناکام ریاستی بیانیہ معاشرے پر جبرا مسلط رہتا ہے۔ یہ تو چونکہ سوچنے سمجھنے کی نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوتے اس لیئے قومی نرگسیت اور ہمسایوں کو فتح کرنے کے بیانیوں کو من و عن مان کر نفرتوں کی آگ کا ایندھن بننے کے کام آتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ان کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والے باشعور شہری بھی اس ناکام اور گھسے پٹے بیانیے کے قیدی بن چکے ہیں۔ اس بیانیے کے تحت مقدس گائے کے منصب پر فائز مذہبی اور دفاعی اشرافیہ اور نظریات کو نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کو لے کر معاشرت میں آزادانہ مکالمے یا تعمیری گفتگو کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے ساتھ ہونے والا سلوک اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی جس میں تیسری دنیا کے ممالک میں دفاعی اداروں کے پالیسی سازی میں بڑھتے ہوئے اختیارات دوارے ایک صحت مند مکالمہ کیا گیا اور نتیجتا انہیں ایک منظم مہم کے ذریعے را کا ایجنٹ قرار دلوانے کی سر توڑ کوششوں کا آغاز ہوگیا۔ ہمیشہ کی طرح میڈیا کے کچھ بندر اس تماشے میں آگے آگے رہے اور وں نے بھی ہمیشہ کی طرح بنا کچھ سوچے اور سمجھے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ پر غداری کا الزام تھوپ ڈالا۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا اصل جرم ان کی لکھی ہوئی مشہور زمانہ کتاب ملٹری ان کارپوریشن ہے جس میں دفاعی ادارے کے کاروبار اور ان کی سول حکومتوں پر اجارہ داری کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ہمارے دفاعی اور مذہبی ٹھیکیدار آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی ان کی اجارہ داری کو چیلنج کرے اس کو غدار اور کافر کہلوا کر قصہ ہی ختم کروا دو۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں جب تک ان اجارہ داروں کو کوئی چیلنج نہ کرے تو ٹھیک وگرنہ کرپشن احتساب کا نعرہ لگوا کر عمران خان یا طائر القادری جیسے مہروں کے ذریعے اس کو کمزور بنا دو۔

وطن عزیز کے اصل مسائل کو نہ تو حل کرنے دو اور نہ ہی علم و آگہی کے اجالے معاشرے میں آنے دو۔ اور یہ اجارہ داری معاشرے میں بسنے والے وں کے ذریعے باآسانی برقرار رکھی جاتی ہے۔ ملا اور دفاعی الائنس مل کر وطن عزیز کے وسائل کا اچھا خاصا حصہ لے جاتا ہے لیکن کسی کو ان دو اجارہ داروں سے سوال کرنے کی جرات نہیں ہوتی کہ یہ وسائل کہاں خرچ ہوتے ہیں ان میں کیا کرپشن ہوتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ وطن عزیز میں خواہ کتنے ہی برے حالات کیوں نہ ہو لیکن دفاعی اور مذہبی انڈسٹری ہمیشہ فائدے میں رہتی ہے۔

سقوط ڈھاکہ کی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ہو یا سیاچن یا پھر کارگل تمام رپورٹوں کا انتظار ہی رہتا ہے۔ البتہ ایک منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھ جاتا ہے ایک کا قتل ہو جاتا ہے اور ایک کو پہلے اٹک جیل بھیجا جاتا پے پھر جلاوطن کیا جاتا ہے اور پھر جب وہ اس کے باوجود تیسری دفعہ منتخب ہو جاتا ہے تو اسے آئین اور عدالتوں کی چھتری کا سہارا لے کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری جانب مذہبی انڈسٹری کو بھی فروغ دیا جاتا پے تا کہ ایک خاص سوچ سے ہٹ کر نہ تو کچھ سوچا جا سکے اور نہ ہی سمجھا جا سکے۔ یوں اوریا مقبول جان جیسے لوگ جو بیوروکریسی میں ساری زندگی سیاستدانوں اور آمروں کے تلوے چاٹتے ہیں وہ معزز بن کر ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے کبھی اقلیتوں کو دبانے کے کام آتے ہیں تو کبھی تہذیبی نرگسیت کو برقرار رکھنے میں۔

اسی طرح زید حامد جیسے افراد ففتھ وار جنریشن اور غزوہ ہند کے نام پر ذہنوں کو مقید رکھنے کا کام خوب انجام دیتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ہمارے بطور معاشرہ ناکامیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہم ہیں اور ہم خود چاہتے ہیں کہ وقت گزاری کیلئے بس کوئی نہ کوئی تماشہ ہمارے سامنے لگا رہے اور ہم اس سے محظوظ ہوتے رہیں۔ ہمہ وقت تماشہ دیکھنے کی لت بہت مہنگی ہوتی ہے جو طوائف کے کوٹھوں پر تماشہ دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں آخر میں گھر بار دولت اور رشتوں سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں لیکن جو معاشرے ی کا شکار ہو جائیں تو تخلیق اور سوچ سے محروم ہو کر خود اپنی بنیادیں کمزور کر ڈالتے ہیں۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔