سیسل 2002 میں زمبابوے کے ایک وائلڈ لائف سفاری پارک میں پیدا ہوا اپنے انسان دوست رویے کی وجہ سے وہ جلد ہی نہ صرف زمبابوے میں بلکہ پوری دنیا سے سیاحت کی غرض سے وہاں آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ سیسل نامی اس شیر کو بچوں سے لیکر بوڑھے تک پسند کرتے تھے اور زمبابوے میں آئے سیاح بھی صرف سیسل کی وجہ سے پارک کا تفریحی دورہ ضرور کرتےتھے۔
یکم جولائی 2015 کو اچانک سیسل کی ہلاکت کی خبر آئی اور پھر تحقیقات کرنے پر انکشاف ہوا کہ امریکہ سے تعلق رکھنے والا ایک ڈینٹسٹ والکر پالمر جو کہ شکار کا شوق رکھتا تھا اس نے چند ہزار ڈالرز کے عوض زمبابوے کے مقامی شکاری گائڈ کی مدد سے سیسل کا شکار تیروں سے کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ یاد رہے کہ شکار کی دنیا میں تیر اندازی سے شیر کا شکار کرنے والوں کو سب سے بڑا شکاری مانا جاتا ہے کیونکہ تیر سے شکار کرنے کیلیے آپ کو شیر کے انتہائی قریب جانا پڑتا ہے۔ اور شکار کے شوقین افراد اس شوق کیلیے بے بہا پیسہ خرچ کرتے ہیں۔
سیسل کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئی اور بین الاقوامی اخبارات، جریدوں میں یہ لیڈ سٹوری کے طور پر شائع ہوی ٹی وی چینلز پر بھی اس پر مباحثہ شروع ہوگیا۔ انٹرنیٹ سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سب پر والکر پالمر کو سزا دینے کے مطالبات شروع ہو گئے۔ پالمر نے معـزرت بھی کی لیکن جانوروں کے حقوق کی تنظیموں سے لیکر میڈیا تک سب پر ایک ہی مطالبہ تھا کہ سیسل کو ہلاک کرنے والے اس شخص کو سزا دی جاے۔ ادھر زمبابوے کی حکومت نے اس کام میں اس کی مدد کرنے والے افراد پر مقدمہ قائم کر دیا اور زمبابوے کی حکومت نے امریکہ سے مطالبہ بھی کیا کہ پالمر کو زمبابوے کے حوالے کیا جاے تا کہ اس پر سیسل نامی شیر کی جان لینے کا مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکے۔
خود امریکہ کے اندر ہر شخص کا مطالبہ تھا کہ پالمر کو سزا ملنی چاہیے۔ امریکہ سے لیکر یورپ تک میڈیا میں اس واقعے پر بحث مباحثہ کئی دنوں جاری رہا۔ اس واقعے پر اتنے شدید رد عمل نے یہ ثابت کر دیا کہ قومیں صرف معاشی یا دفاعی بل بوتے پر ترقی نہیں کرتیں بلکہ شعور کی منازل اور زندگی کے صیح معنی کو جاننا اور سمجھنا بھی ترقی کیلیے اشد ضروری ہے۔ اور انسان کہلانے کیلیے بھی اسکی یہی تعریف ہے۔ اسے شاید زندگی کی قدر اور انسانیت کا درد کہتے ہیں کہ ایک شیر کی ہلاکت پر اتنا شدید رد عمل اور دو ممالک کی حکومتوں کا آپس میں رابطہ۔ یہ سارا منطر نامہ دیکھنے کے بعد اپنے معاشرے کی طرف دیکھا تو خیال آیا کہ ہمارے ہاں زندگی کتنی سستی اور بے وقعت ہے۔
تھر میں بچے بھوک سے مرتے ہیں سکولوں میں دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں کہیں مصطفی کانجو جیسے درندے راہ چلتے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اخلاقیات اور افضل ترین قوم کے نعرے مارتے ہم لوگ شاید مہذب دنیا سے بہت پیچھے اور بےحد دور بستے ہیں۔ زندگی کی قدر و منزلت سے بے خبر ایک بے ہنگم ہجوم کی طرح بس زندگی گزارے جاتے ہیں اور دل کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ خدا کی افضل ترین قوم ہم ہیں اور یہ مہذب معاشرے دراصل کھوکھلے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زندگی کی قیمت جہاں روٹی سے بھی سستی ہو وہ معاشرہ کیسے پنپ پائے گا۔ جہاں روز انسان کبھی مذہب کبھی لسانیت کبھی قومیت اور کبھی محض اختلاف رائے کی بنیاد پر گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جاتے ہوں وہاں بھلا دوسرے جانداروں کا خیال بھی کسے آئے گا۔ زندگی گزارنے کے طریقوں کے بارے میں لیکچر دیتے کبھی سوچیئے کہ ہم کس منہ سے ان معاشروں سے اپنا تقابلہ کرتے ہیں۔ ہم کون سے اسلحے اور ایٹم بم کی بنا پر دنیا بھر میں اکڑتے پھرتے ہیں؟
زمبابوے افریقہ کا ایک غریب ملک ہے جہاں سیاسی بحران کے علاوہ انتہا کی غربت ہے لیکن زرا اس معاشرے کی ہی اعلی اقدار اور سوچ کو دیکھ لیجیے کہ سیسل کیلیے کیسے تڑپے۔ زمبابوے کی حکومت ایٹمی طاقت نہیں تھی لیکن سفارتی سطح پر امریکہ سے امریکن شہری کو انکے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتی رہی۔ اور امریکہ کے اندر بسنے والے امریکی رنگ نسل مذہب کی تفریق کیے بنا زمبابوے کی حکومت کے اس مطالبے کی حمایت کرتے رہے۔ اس کے برعکس اپنے ہی وطن میں اپنے باشندوں کے ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے پر ہم چپ سادھے گونگوں بہروں کی طرح بیٹھے رہے۔
ہم ایٹمی طاقت اور اسلام کے قلعہ ہونے کا دعوی کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کیس پر ایسے ڈھیر ہوے جیسے خزاں میں درختوں سے پتے۔ ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے ملک میں کسی جانور کو نہیں انسانوں کو دن دیہاڑے قتل کیا تھا لیکن ہماری حکومت سے لیکر سول سوسایٹی اور مذہبی جماعتوں تک کے منہ بند کروا کر اسے آرام سے اسکے وطن بھیج دیا گیا۔ ہم سب بھی بس گھروں میں بیٹھ کر امریکہ کو کوس کر کچھ عرصے بعد حسب معمول سب بھول گئے۔
کراچی میں روز انسانوں کا شکار ہوتا ہے لیکن ہم آنکھیں پھیر کر چپ کر جاتے ہیں۔ بلوچستان میں مارے جانے والے مزدور ہوں یا غیرت کے نام پر قتل کیے جانی والی خواتین یا دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے افراد۔ سب کی لاشیں چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہی ہیں کہ ہمارا کیا قصور تھا۔ ہمیں کم سے کم سیسل جتنی اہمیت تو دی جاتی کم سے کم آواز تو بلند کی جاتی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2014 میں صرف بم دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد 824 تھی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ پڑھیے کہیں خواتین اور بچوں کو ریپ کے بعد قتل کیا جا رہا ہے اور کہیں تیزاب پھینک کر جلایا جا رہا ہے کوٹ رادھا کشن میں جسطرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے مسیحی جوڑے کو جلایا گیا اس حیوانیت کی مثال نہیں ملتی۔ پشاور میں آرمی سکول کے بچوں کو اور چارسدہ میں یونیورسٹی کے طلبا کو جسطرح بے رحمی سے قتل کیا گیا اسکے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں۔ ایک موم بتی جلا کر چند سیلفیز لینے کا رواج البتہ ضرور قایم ہوگیا۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں از سر نو قوانین اور اخلاقیات کا ڈھانچہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
اب جس ملک میں 8 ماہ کی شیر خوار بچی سے لیکر سکول جانے والے بچوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا جاتا ہو اس ملک کو توہین انسانیت کے قانون کی سخت ضرورت ہے۔ جہاں گرمی کی شدت سے مرنے والوں کو حکومت اور معاشرے کے رہنے والے افراد کفن اور قبریں بھی مہیا نہ کر سکیں اس ملک اور معاشرے کو ایک نئے سماجی اور سیاسی کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ جہاں بچوں کو بھی اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے جنگ کا حصہ بنا دیا جاتا ہو اور اس سانحہ پر بھی قوم تقسیم ہو وہاں پر انسانی جان کی تقدس کے آئین اور قانون کی سخت ضرورت ہے۔ جہاں غیرت کے نام پر ہزارہا بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہو اس معاشرے کو در حقیقت خود غیرت کی اشد ضرورت ہے۔
فلسطین کشمیر اور برما کے حقوق کیلیے رونے والوں کو بلوچستان کے مسنگ پرسنز سے لیکر کراچی میں ہر روز مرتے بے گناہ شہریوں کی تحفظ کیلیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ زندگی خدا کی دی ہوی سب سے بڑی نعمت ہے اور جو معاشرے اس نعمت کی قدر نہیں کرتے وہ مٹ جاتے ہیں یا مٹا دیے جاتے ہیں۔ انسان کہلانے کیلیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کا درد بھی اسی طرح محسوس کریں جیسے اپنے درد کو کرتے ہیں۔
بھیڑ بکریوں کی طرح سر جھکا کر صرف اپنی اپنی زات کیلیے جینا اور اوپر سے تمام دنیا کو اپنے سے رنگ نسل مذہب کی بنیاد پر کمتر سمجھنا ہمیں بے حسی کے پاتال میں دھکیلتا چلے جا رہا ہے جو موم بتیاں جلا لینے سوشل میڈیا پر سٹیٹس آپ ڈیڈ کر دینے یا سیمینارز میں اے سی کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر محض ان مسائل پر بات کرنے سے ختم نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی اشد ضرورت ہے جو کم سے کم ہر ذی روح کو سیسل جتنی اہمیت اور انصاف تو دے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جن معاشروں سے ہم نفرت کرتے ہیں اور جنہیں منافق کہتے ہیں در اصل وہ انسانیت کی بلندی پر فائز ہیں اور جو حضرت عمر کے اس قول کہ "اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو میں اس کی موت کا ذمہ دار ہوں" پر من و عن عمل کرتے ہیں۔ ہم صرف نعرے لگانے مار دو مر جاو اور کافر کافر کے نعروں کے علاوہ عملی طور پر کیا کرتے ہیں۔ سیسل کی موت کے بعد اس پر اٹھنے والے رد عمل کے اس وقعہ کو جاننے کے بعد کے امر نے میرے کاندھوں پر ایک نہ برداشت کرنے والا بوجھ ڈال دیا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وطن میں ہر بے گناہ کی موت پر چپ رہ کر میں بھی ایک طرح سے اس قتل میں شریک ہوں۔
اپنے آپ سے آپ بھی سوال کیجیے گا کہ جانور تو دور کی بات کیا انسانی جان اور زندگی کو بھی ہم کوئی اہمیت نہیں دیں گے؟ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے میں اپنا اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے جہاں زندگی کی قیمت ہو؟ جہاں انسانوں کو حیات وبال جاں نہ ہو۔ آواز اٹھائیے مگر انسانیت دوستی امن اور بھائی چارے کی بالادستی کیلئے۔ ہم اچھی بات اور سبق کہیں سے بھی اور کسی سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ آئیے سیسل کے اس واقعہ سے زمین پر موجود ہر جاندار کی زندگی کی اہمیت اور قدر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔