تیز رفتار ترقی کے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ علم کا فہم بہت کم رہ گیا ہے جبکہ سوشل میڈیا رابطوں اور لاتعداد پلیٹ فارمز کی وجہ سے ہر قسم کی معلومات آسانی سے میسر ہیں۔ آج ہر کوئی اپنی مرضی کا بول، بول رہا ہے، مرضی کی چیز پڑھ رہا ہے اورلکھ رہا ہے۔ لامحالہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھ رہا ہے۔ تلخی کے اس ماحول میں باہمی تنازعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مکالمہ کی اہمیت کو سمجھا جائے۔
مکالمہ کا بنیادی مقصد مختلف نظریات کے لوگوں کے درمیان راہ ہموار کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو اپنا مدعا بلا جھجک بیان کرکے، ایک دوسرے کی ترجیحات اور ضروریات کو سمجھ سکیں اور متنازعہ اور حل طلب مسائل، پُرامن طریقے سے حل ہوسکیں۔ یاد رہے! اچھے مکالمے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جنہیں بات کرتے وقت ضرور ملحوظ خاطر رکھناچاہیے۔ سب سے اہم تو یہ کہ مخاطب کے مقام اور مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ زیادہ تر مکالمے اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ہم مخاطب کو اس کا جائز رتبہ دینے سے انکاری ہوتے ہیں یا مناسب الفاظ کا انتخاب نہیں کرتے۔
یاد رکھیں! جب مکالمہ شروع نہیں ہوتا یا بند ہو جاتا ہے تب دنگا فساد شروع ہو جاتا ہے جس کی ابتدائی شکل احتجاج یا ایجی ٹیشن ہے۔ افراد یا گروہوں کی طرف سے کسی خاص مسئلے، پالیسی یا اتھارٹی کے خلاف، عدم اطمینان یا شکایات کا اظہار کرنے کے لیے احتجاج یا ایجی ٹیشن کی جاتی ہے۔ احتجاجی کارروائیاں مختلف شکلوں میں کی جاتی ہیں جن میں مظاہرے، ریلیاں، بائیکاٹ، دھرنے اور ہڑتالیں شامل ہیں۔ احتجاج کا بنیادی مقصد کسی خاص سیاسی، خارجی، معاشی یا مذہبی مسئلے کی طرف حکومتی ادارے کی توجہ مبذول کروانا اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں فیصلہ ساز اداروں پر اپنی شکایات یا تحفظات کو تسلیم کروانے کے لیے دباؤ ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں انصاف کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بامقصد احتجاج ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ پسماندہ آوازوں کو بااختیار بناتے ہیں، غیر منصفانہ طاقت کے ڈھانچے کو چیلنج کرتے ہیں۔ دنیا میں موثر معاشرتی تبدیلی کے لیے احتجاج ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور یوں حکام بالا کو اصلاح کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
جدید دور میں احتجاج اور تحریک کے لیے سوشل میڈیا کا کردار کثیر الجہتی ہوگیا ہے کیونکہ سوشل میڈیا لوگوں کو متحرک کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ناانصافی کے ثبوت تک فوری رسائی اور بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو بھی ممکن بنایا ہے اور ذمہ داروں کو اُن کے اعمال کے لیے جوابدہ بھی ٹھہرایا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کی معلومات کو تیزی سے پھیلانے کی صلاحیت بھی دو دھاری تلوار ہو سکتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا میں غلط معلومات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتی ہیں جس تیزی سے درست معلومات۔ اگر سوشل میڈیا غلط معلومات کا میدان جنگ ہو تو سوشل میڈیا کا یہ پہلو لوگوں میں تقسیم اور پولرائزیشن کو ہوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس پولرائزیشن اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کی براہ راست ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے جسے مناسب قانونی اقدامات کرکے اس کے مضر اثرات سے عوام کو بچانا ہوتا ہے۔
دنیا میں کامیاب مظاہروں کی کئی تاریخی مثالیں ہیں جن کی وجہ سے کسی ملک میں اہم مثبت تبدیلیاں آئیں، یہاں چند مثالیں پیش ہیں جیسے عرب سپرنگ، جس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت کے حامی مظاہروں اور بغاوتوں کی لہر نے تیونس، مصر اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں اہم سیاسی تبدیلیوں کا معرکہ سرانجام دیا۔ دوسری مثال ویت نام جنگ کے خلاف طلباء اور کارکنوں کے مظاہرے ہیں جنہوں نے رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بالآخر ویت نام سے امریکی فوجیوں کا انخلاء ممکن ہوا۔
تیسری مثال سارڈینز موومنٹ ہے جس میں لاکھوں لوگوں نے سیاسی تبدیلی کا نعرہ لگایا جس پراطالوی وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا۔ کامیاب مظاہروں اور ایجی ٹیشن تحریکوں کے لیے اسٹریٹجک منصوبہ بندی، غیر متزلزل عزم، موثر ابلاغ اور اجتماعی طاقت کو بروئے کار لانے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اجتماعی عمل کی طاقت کے باوجود احتجاجی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتیں۔
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں حقیقی شکایات اور پرجوش سرگرمی کے باوجود، لوگوں کا احتجاج کوئی بھی بامعنی تبدیلی لانے میں ناکام رہا۔ اندرونی تقسیم، بیرونی جبر، واضح اہداف کی کمی، بیانیے کی تبدیلی یا پائیدار اتحاد بنانے میں ناکامی کسی بھی عوامی احتجاج کو بے اثر کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ان ناکام تحریکوں میں امریکہ میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک (2011-2012) اور فرانس میں Gilets Jaunes احتجاج (2018-2019) نمایاں ہیں۔
اب ہم اپنے وطن پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں ان دنوں زور و شور سے احتجاج اور ایجی ٹیشن کی باتیں کی جارہی ہیں۔ دنیا میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ پوری دنیا عالمی جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے۔ عالم اسلام اور کفار کی چپقلش اب مذہبی جنون کا رُخ اختیار کر چکی ہے مگر ہمارے سیاست دان ملک کی معیشت اورسلامتی کو بالائے طاق رکھ کر صرف اقتدار کے حصول پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی کمزور اقتصادی حالت کو جانتے ہوئے بھی بد امنی کی بات کی جارہی ہے۔
یاد رکھیں! ایسے غیر یقینی اور نامناسب حالات میں ملک کی سلامتی اور معیشت پر مظاہروں اور ایجی ٹیشنز کے بد اثرات ہو سکتے ہیں۔ احتجاج اور تحریکیں نقل و حمل، تجارت اور صنعت میں رکاوٹوں کا باعث بن سکتی ہیں جس کے نتیجے میں ذاتی اور ملکی کاروبار اور مجموعی طور پر معیشت کو نقصان ہوتا ہے کسی بھی ملک کی ریٹنگ منفی میں جاتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے امداد روک لی جاتی ہے۔ وسیع پیمانے پر مظاہرے اور احتجاج کی وجہ سے سیاح اور غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کو روک سکتے ہیں جس سے ملک کی آمدنی اور اقتصادی ترقی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
احتجاج والے افراد کو سنبھالنے اور قابو کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات پر اُٹھنے والے اخراجات، حکومت کے وسائل پر بوجھ کا سبب بنتے ہیں اس کے علاوہ ایسی سرگرمیوں کے لوگوں کی نفسیات پربھی نمایاں اثرات نظر آتے ہیں احتجاج اور تحریکیں غیر یقینی کی فضا پیدا کر تی ہیں جس سے شہریوں میں بے چینی اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ دوسری طرف، احتجاج اور ایجی ٹیشنز کے مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں جیسے احتجاج کی وجہ سے اہم مسائل کی طرف توجہ مبذول ہوتی ہے اور معاملات پر عوام کی بیداری میں اضافہ ہوتا ہے۔ احتجاج لوگوں کو سماجی اور سیاسی مسائل میں زیادہ مشغول ہونے کی ترغیب دیتا ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ احتجاج ایک مشکل عمل ہے جو کسی ملک کی معیشت اور لوگوں کی نفسیات پر مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب کر تا ہے اگرچہ احتجاج معاشی سرگرمیوں میں خلل ڈال سکتے ہیں، عوام الناس میں اضطراب پیدا کر سکتے ہیں، بیداری پیدا کر سکتے ہیں اور سماجی تبدیلی کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ مگر بہتر عمل یہ ہے کہ شہری اور حکومت اپنی شکایات کے ازالے اور تحفظات کے اظہارکے لیے تعمیری مکالمے میں شامل ہوں اور ایسے حل تلاش کرنے کے لیے کام کریں جس سے تمام فریقین کو فائدہ ہو اورملکی استحکام اور سالمیت کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔