تیز رفتاری سے بھاگتی اس دنیا کے لوگوں کو نئے رنگوں سے آشنا کروانے اور سماجی تبدیلی کو آگے بڑھانے میں مقبول اور متاثر کن رہنماؤں کے کردار کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ قائد اعظم، مہاتما گاندھی، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا جیسی شخصیات کو سماجی انصاف، مساوات اور آزادی کے حصول کے لئے کی جانے والی انتھک اور لازوال خدمات کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض اوقات نا سمجھ افراد کی اپنے پسندیدہ رہنماء کے ساتھ عقیدت، اُن کو اندھی تقلید کے راستے پر لے جاتی ہے۔
یاد رکھیں! اگرچہ کسی بھی معاشرے میں یہ متاثر کن شخصیات یارول ماڈلز تبدیلی کی ترغیب دے سکتے ہیں لیکن عقیدت رکھنے والوں کا تنقیدی عکاسی کے بغیر ان کے طریقوں کی آنکھیں بند کرکے نقل کرنا خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ معاشرے کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہئے، کیونکہ اندھی تقلید کبھی بھی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر دور اپنے ساتھ منفرد چیلنجز لاتا ہے تب ان چیلنجز کو ایسے حل کی ضرورت ہوتی ہے جو سیاق و سباق کے مطابق ہوں چنانچہ سماجی تحریکوں کو وقت کی ضروریات، ثقافت اور حقائق کی بنیاد پر باضابطہ طور پر جنم لینا چاہیے۔ میں اپنی بات انقلاب فرانس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں (1789-1799ء) میں میکسمیلیئن روبسپیئر جیسی شخصیات کی سربراہی میں انقلاب فرانس نے جابرانہ بادشاہت کو ختم کرنے اور جمہوریہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ میکسمیلیئن روبسپیئر کو ابتدائی طور پر ایک انقلابی اور انسانی حقوق کے چیمپئن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ بہت سے انقلابیوں نے روبسپیئر کی اندھی تقلید کی اور اُس کے ہر عمل کو جائز قرار دیا۔
اس دور میں ہزاروں افراد کو پھانسی دی گئی جن میں اختلاف کرنے والے ممتاز انقلابی بھی شامل تھے جو کبھی روبسپیئر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ اقتدار پرمستقل قبضہ کرنے کے لئے انقلاب کے ابتدائی نظریات پر تشدد والی سوچ غالب آگئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لیڈر کے نقطہ نظر کو غیر تنقیدی اپنانے سے اخلاقی تنزلی اور بنیادی اقدار کا نقصان ہو سکتا ہے۔ میکسیملین روبسپیئر کی ذات آج بھی مورخین کے درمیان زیر بحث ہے۔ کچھ لوگ اسے فرانسیسی انقلاب کے ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے اصولوں کے لئے جدوجہد کی۔ دوسرے اسے ایک بے رحم آمر کے طور پر دیکھتے ہیں، جس نے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور مظالم کا ارتکاب کرنے کے لئے سادہ لوح عوام کے انقلابی جوش کا فائدہ اٹھایا۔
ہم دوسری مثال روسی انقلاب کی دے سکتے ہیں 1917ء کاروسی انقلاب دنیا بھر کے سیاسی نظریات میں ایک بنیادی تبدیلی لے کر آیا۔ ابتدائی طور پر اس انقلاب کو عام مزدور کے لئے ایک یادگار فتح کے طور پر دیکھا جاتا تھا، مگر جلد ہی لینن اور ٹراٹسکی جیسی اہم شخصیات کے درمیان اندرونی کشمکش نے اسے گہنا دیا۔ "آنکھیں بند کرکے مستقل انقلاب" کے تصور کو کامیاب کرنے کے لئے ٹراٹسکی کے پیروکاروں نے پوری دنیا میں کمیونسٹ نظریات کو مستحکم کرنے کے لئے جارحانہ اور پُرتشدد کارروائیوں کا سہارا لیا۔ اختلاف رائے کو پرتشدد طریقے سے دبانے کی وجہ سے خانہ جنگی ہوئی اور بالآخر سٹالنزم کا عروج ہوا۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ کسی رہنماء کے وژن کے مضمرات پر غور کیے بغیر غیر تنقیدی پیروی بالآخرآمرانہ طرز عمل کا باعث بن سکتی ہے جو آزادی اور مساوات کے اصل مقاصد کی نفی کرتی ہے۔
تیسری مثال میں پیپلز ٹیمپل کے رہنما جم جونز کو ابتداء میں ایک کرشماتی اور ہمدرد شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس نے اپنے پیروکاروں سے یوٹوپیائی کمیونٹی کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اُس کی جانب سے کچھ عرصے بعد اپنے پیروکاروں کے گروہ یا دوسرے لفظوں میں فرقے کے افراد کو ایک نئی کامیابی کی نوید سنائی گئی جس کے حصول کے لئے پیروکاروں کی اجتماعی خودکشی کا پروگرام بنایا گیا، 1978ء میں گیانا کے جونس ٹاؤن میں ایک اجتماعی خودکشی میں 900 سے زیادہ لوگوں نے موت کو گلے لگایا اور یوں تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی خودکشی ہوئی۔
چوتھی مثال یوگنڈا کے سابق صدر ایدی امین ہیں، ابتدائی طور پر یوگنڈا کے لوگوں نے ایک ہیرو کے طور پر دیکھا جو ملٹن اوبوٹے کی بدعنوان اور آمرانہ حکومت سے تنگ تھے۔ تاہم ایدی امین کی سفاکانہ اور بدعنوان حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بدعنوانی اور معاشی بدانتظامی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ یوگنڈا میں 1971ء اور1979ء کے درمیان اندازاً 100,000 سے 500,000 لوگوں کو مروایا گیا۔
20 ویں اور 21 ویں صدیوں کے دوران دنیا کی شخصیات نے عوام کے ایک گروہ کو فرقہ بنا دیا جہاں کسی شخصیت سے عقیدت کو عقلی فیصلے پر غالب آنا لازمی سمجھا گیا۔ ان میں ایڈولف ہٹلر اور شمالی کوریا میں کم ال سنگ جیسی شخصیات شامل ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے پیروکاروں کی اندھی وفاداری کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا اور ایسی پالیسیوں کو نافذ کیا جس سے ملک و قوم کے لئے تباہ کن نتائج نکلے۔ اُن کے پیروکار یہ مانتے تھے کہ اپنے لیڈروں کے نظریات کی وفاداری سے پیروی کرتے ہوئے دراصل وہ ملکی ترقی میں حصہ ڈال رہے ہیں، مگر درحقیقت یہ اندھی عقیدت، جنونیت، انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں، جنگوں اور بڑے پیمانے پر مصائب کا باعث بنی۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئین سٹائن کا ایک قول یاد آرہا ہے
Blind belief in authority is the greatest enemy of truth.
یہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ صلاحیت اور بصیرت کے باوجود ہمارے پسندیدہ رول ماڈلز آخر انسان ہی ہیں۔ وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کے پاس موجودہ مسائل کے تمام حل نہ ہوں۔ تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ حقیقی معاشرتی تبدیلی لوگوں کی اپنی اجتماعی مرضی اور سمجھ سے آتی ہے نہ کہ محض کرشماتی رہنماؤں کے نظریات کی اندھی تقلید سے۔ اُوپر بیان کیے گئے تمام رہنماؤں کے پیروکار شروع دن سے اپنے رہنماء کی کرشماتی شخصیت، تبدیلی کے وعدوں، انسانی حقوق کی پاسداری اورانصاف و برابری کے احساس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
تاہم جلد یا بدیر انہیں اپنے قائدین کے اقدامات کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جن میں آمریت، بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نمایاں تھی اگر ہم غور کریں تویہ مثالیں اندھی وفاداری کے خطرات اور تنقیدی سوچ اور اخلاقی ذمہ داری کی اہمیت کے بارے میں احتیاطی کہانیوں کا کام کریں گی۔ آئیے جوش پر حکمت کو ترجیح دیں اور یہ تسلیم کریں کہ ایک بہتر ین معاشرے کی طرف کامیاب سفر کے لئے ہمیں دستیاب وسائل اور معلومات کے علاوہ اپنی عقل سمجھ بھی استعمال کرنی چاہئے۔