سب جانتے ہیں کہ جب دو گاڑیاں ٹکراتی ہیں تو اصل نقصان سے نظر ہٹ جاتی ہے۔ فریقین گالم گلوچ پر اُتر آتے ہیں اور دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ اس وقت صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے تصادم میں سب سے زیادہ نقصان خود ریاست کوہی پہنچے گا۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ملک بدامنی، بے سکونی اور ہیجان کا شکار ہو رہا ہے غیر یقینی کیفیت نے سرکار، افسرشاہی اور دیگر اداروں کو وقتی طور پر معطل کر رکھا ہے اس ادارہ جاتی لڑائی میں سب سے زیادہ دلچسپی ہمارے دشمن کو ہے کیونکہ اُس کا مقصد پورا ہو رہا ہے۔
اگر یہ لڑائی صرف اور صرف اپنی حاکمیت اور بالادستی کے لیے ہے تو یاد رکھیں! کسی کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اگرآئین اور سرحدوں کا تحفّظ کرنے والے اپنی یا اپنے ادارے کی بالادستی کی بجائے آئین کی حاکمیت اور ملکی سلامتی کی اہمیت کو دل سے تسلیم کر لیں تو ٹکراؤکا خاتمہ فوری طور پر ممکن ہے۔ ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور آئین کے مطابق فیصلوں کو تو عوام بخوشی ہضم کر لیں گے مگر جب انصاف کے ترازو کا ایک پلڑا واضح طور پر جھکا ہوا اور دوسرا اُٹھّا ہوا نظر آئے گاتو عوام کا اپنے ملکی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ آج ہر محفل میں دردِ دل رکھنے والے لوگ ایک دوسرے سے ضرور پوچھتے ہیں"یہ کیاہو رہا ہے؟ یہ کیوں ہو رہا ہے؟
کس کے کہنے پر ہو رہا ہے؟" لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ زیادہ تر ٹی وی اینکرز سیاسی پارٹیوں یا غیر جمہوری قوتوں کے کارندے بن چکے ہیں، اُن کی گفتگو سُن کر احساس ہوتا ہے کہ اکثر تجزیہ کار ایک فریق کے ہر کام کو صیحح اور ملک کے لیے مفید اور دوسرے فریق کے ہر کام کو غلط اور ملک کے خلاف کہتے ہیں۔ غیر جانبدار قانونی ماہری کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کچھ ارکان پارلیمنٹ اور منصفین اعلیٰ اداراتی روایات سے ہٹ کر اپنی اناؤں کے اسیر ہو گئے ہیں اگرچہ ایسا کرنا روایات پارلیمنٹ اور آدابِ منصفی کے منافی ہے اب ہم دنیا کے دیگر ممالک کی چند مثالیں دیکھیں گے جہاں ادارتی جنگ اور کشمکش نے ملک کو کیسے نقصان پہنچایا۔
2013ء میں تھائی حکومت پر سنگین الزامات جن میں کرپشن اور حکومتی وسائل واختیار کا ذاتی استعمال نمایاں تھے جبکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حکومتی رٹ بھی متاثر تھی اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے معافی کا ایک بل منظور کرنے کی کوششیں جاری تھی جس کے تحت سابق وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا (ینگ لک کے بھائی) کو جلاوطنی سے واپس آنے کا موقع ملتا۔ ایسا بل لانے پر حزب اختلاف اور فوج کے درمیان خوف پیدا ہوا کہ حکومت خود کو مستحکم کرنے اور سیاسی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاریخی طور پر تھائی لینڈ کی سیاست میں فوج نے ہمیشہ ایک اہم کردار ادا کیا تھا چنانچہ 22 مئی 2014 کو فوجی مداخلت ہوئی اور حکومت سے اقتدار چھین لیا گیا۔
اخوان المسلمون کے محمد مرسی نے مصر میں 2012 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت سیاسی پولرائزیشن پورے عروج پر تھی۔ مرسی کے اسلام پسند ایجنڈے اور شریعت کے نفاذ کی کوششوں نے سیکولرز، لبرل اور قبطی عیسائیوں کی شدید مخالفت کو جنم دیا، جو اخوان المسلمون کے غلبے سے خوفزدہ تھے نیز حکومت شدید اقتصادی چیلنجز، ایندھن کی قلت، بجلی کی بندش، اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں تیزی سے کمی سے متاثر تھی۔ مرسی کی جانب سے فوج کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے اقدامات نے فوجی قیادت کی طرف سے مزاحمت کو جنم دیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں 3 جولائی 2013 کو فوج نے مرسی کو معزول کرکے آئین کو معطل کر دیا اور ایک عبوری حکومت قائم کی۔
وینزویلا کا سیاسی بحران 2017 میں شروع ہوا جب مادورو کی حکومت کو ڈیموکریٹک یونٹی راؤنڈ ٹیبل (MUD) اتحاد کی قیادت میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جوآن گوائیڈو کی قیادت میں قومی اسمبلی نے 2018 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد مادورو کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بحران 2019 میں اس وقت مزید بڑھ گیا جب قومی اسمبلی کے صدرجوآن گوائیڈو نے مادورو کی غیر قانونی حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو عبوری صدر قرار دے دیا لیکن دوسری جانب مادورو نے فوج اور اہم سرکاری اداروں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ مادورو کی طاقت کو مستحکم کرنے اور قومی اسمبلی کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوششوں نے ایگزیکٹو اور قانون ساز اداروں کے درمیان کشمکش کو ہوا دی۔ اس صورت حال میں وینزویلا شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا تھا جس میں افراط زر، خوراک کی کمی اور وسیع پیمانے پر غربت تھی۔ قومی اسمبلی نے بحران کا ذمہ دار مادورو کی حکومت کو ٹھہرایا جبکہ مادورو نے اپوزیشن پر معیشت کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا۔
راج نارائن کی طرف سے اندرا گاندھی کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کے جواب میں 12 جون 1975 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس جگموہن لال سنہا نے وزیر اعظم کو ان کی انتخابی مہم کے لیے سرکاری مشینری کے غلط استعمال کے الزام میں قصوروار قرار دیا اور انہیں لوک سبھا کی نشست سے ہٹا دیا۔ اس صورت حال میں بھارتی صدر فخرالدین علی احمد نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 352 کو نافذ کرتے ہوئے اور ملک میں اندرونی خلفشار کو ایمرجنسی کے اعلان کی واحد وجہ قرار دیتے ہوئے قومی ایمرجنسی کا اعلان کردیا۔
جون اور ستمبر 1973 کے درمیان احتجاج اور ہڑتالوں نے چلی کو معذور کر دیا۔ 22 اگست کو، چیمبر آف ڈیپوٹیز نے سلواڈور ایلینڈے کی حکومت پر آئین کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ سلواڈور ایلینڈے نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اقدامات آئینی تھے۔ 11 ستمبر 1973 کو، جنرل آگسٹو پنوشے کی قیادت میں فوجی افسروں کے ایک گروپ نے بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سترہ سال فوجی آمریت نے حکومت کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا کیونکہ اُسے خدشہ تھا کہ چونکہ ایلینڈے، چلی میں سوشلزم کا نفاذ چاہتا ہے جس کی وجہ سے چلی میں کی گئی تمام امریکی سرمایہ کاری ضائع ہو جانے کا امکان تھا۔
ارجنٹائن کو بڑھتی ہوئی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کے ساتھ بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال کا سامنا تھا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام، بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور کرپشن نے حکومت کی عملداری کو عملاً ختم کر دیا تھا۔ صدر ازابیل پیرون کی حکومت کو بائیں بازو اور دائیں بازو کے دونوں گروہوں کی جانب سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اس تناظر میں فوج نے مداخلت کرنے اور صدر پیرن کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور یوں فوجی حکمرانی کا دور شروع ہوا جو 1983 تک جاری رہا۔
آخر میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم پہلے ہی اپنی کمزوریوں اور ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر متحدہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر چکے ہیں لہذا دعا ہے کہ ہمارا ملک اداراتی محاذآرائی کا شکار ہو کر کسی نئے سانحہ کا شکار نہ ہو اور تمام سٹیک ہولڈرز اپنی ذات کے دائروں سے نکل کر ملکی مفاد اور عوامی رائے کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں۔