موجودہ سیاسی منظر نامہ انتہائی غیر یقینی اور تقسیم کا شکار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب سیاست دان دستیاب طاقت اور ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک گروہ عوامی طاقت کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دوسرا گروہ طاقتور رفیق کی پشت پناہی پر نازاں ہے۔ بد قسمتی سے ملکی تاریخ کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے بلکہ ہماری پوری تاریخ میں ایسے سیاسی رہنماؤں کی متعدد مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی سلامتی اور عوامی خدمت سے مقدم رکھا، ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت نے اقتدار اور اختیارات کے حصول کے پیش نظر اپنے طرز عمل سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عدالتی، معاشی، انتظامی یا دفاعی طریقہ کار میں بلا ضرورت خلل ڈالنا یا اس عمل کو مشکوک بنانا براہ راست قومی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے اور یوں ملک اور قوم کمزور ہو سکتے ہیں مگر افسوس ہمارے سیاسی قائدین نے اپنے بیانیے کو مضبوط بنانے کے لیے ہر حد عبور کرنا ہوتی ہے جیسے ان دنوں سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججوں کی تقرری کو بلا وجہ متنازع بنایا جا رہا ہے جبکہ فوج کی جانب سے کے پی کے میں دہشت گردی کے خلاف پلان کو بھی بلا وجہ ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں بتایا کہ عزم استحکام کوئی فوجی آپریشن نہیں ہے بلکہ نیشنل ایکش پلان کا حصہ ہے جس کے دوران نہ تو علاقے میں کاروبار متاثر ہوگا اور نہ مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ دراصل ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے عزم استحکام کو فوجی آپریشن کا نام دیا گیا یوں دہشت گردی کے خلاف اس پروگرام کے بارے میں عوام میں ابہام پیدا ہوا اور کے پی حکومت اور عوام معترض ہوئے۔
حالیہ ٹی وی انٹرویو میں مشیر اطلاعات کے پی بیرسٹر سیف نے عزم استحکام پروگرام پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ ایک انتشاری ٹولہ بد نیتی کے طور پر پاکستانی اداروں کو بدنام کرنے کی ناکام ڈیجیٹل ٹیررازم مہم کو مکمل سپورٹ کر رہا ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے سدباب کے طور پر چند دن پہلے پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر اسلام آباد پر کریک ڈاؤن کرکے حسن رؤف اور دیگر افراد کو زیر حراست لیا گیا۔ دراصل ڈیجیٹل ٹیررازم کے طور پرتحریک عدم اعتماد سے شروع ہونے والے اس سفر میں نومئی کا سانحہ بدترین واقعہ ہے حالیہ دنوں میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عزم استحکام کے ساتھ ساتھ بنوں واقعہ کی خوفناک تصویر کشی کی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ بنوں واقعہ پر فوج کا طرزعمل درست تھا اوراس میں اُن لوگوں کو جواب ہے جو نو مئی کے واقعے پر فوج کی جانب سے ایکشن نہ لینے پر معترض تھے۔ یاد رکھیں! جب شہریوں کو اپنی حکومت یا ریاستی اداروں کے اندر گروپ بندی اور شخصی اختلاف کا علم ہوتا ہے تو اس سے عوام کا اداروں پر اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے اور انتشار کا سبب بنتا ہے۔ یہ سوچ وسیع تر مایوسی، سماجی بدامنی، سیاسی عدم استحکام اور قانون کی حکمرانی میں خرابی کو ہوا دے سکتی ہے اور قوم کے درمیا ن موجود بے چینی کو بڑھا سکتی ہے۔
دوسری طرف اس سیاسی بے یقینی کے ساتھ ساتھ ملکی منڈیوں میں کاروباری افراد کے لیے ناسازگار ماحول، اُن کے اعتماد میں کمی کا سبب بنتا ہے جبکہ تجارت میں مشکلات اور ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کے کسی بھی ملک پر مالیاتی اثرات دیرپا ہو سکتے ہیں اور اس سے قومی معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ چند ماہ پہلے ایک سیاسی جماعت کی جانب سے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور معاشی دباؤ بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف کو مس گائیڈ کیا جا رہا تھا اور بیرونی ممالک میں حکومتی کریڈیبلٹی کے خلاف ابھی بھی بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک قوم جس کی سیاسی قیادت پر کرپشن یا غداری کا الزام لگایا گیا ہو وہ قوم یقیناً بین الاقوامی سطح پر اپنا اعتبار اور عزت کھو دیتی ہے یوں سفارتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں اور عالمی تعاون کے مواقع بھی کم ہوتے جاتے ہیں اور نتیجے میں کسی بھی ملک کے لیے اقتصادی پابندیاں، سفارتی بائیکاٹ اور سیاسی تنہائی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ اس بات کا علم کہ ملک کے سیاست دانوں سمیت ریاستی اداروں میں سے کسی ایک نے اپنے حلف سے غداری کی ہے عوام میں خوف اور شک کی فضا پیدا کرتا ہے ایسے مواقع پر اس بات کا غالب امکان ہوتاہے کہ شرارتی ٹولہ مفادات کے حصول کے لیے اپنے بیانیے کی طاقت سے عوام الناس کو غلط سمت کی طرف موڑ دے۔ ایسے موقع پرایک مثال جو ذہن میں آتی ہے وہ 1970ء کی دہائی کا واٹر گیٹ اسکینڈل ہے۔
صدر رچرڈ نکسن نے، اپنی انتخابی مہم میں تقریباً یقینی شکست کا سامنا کرتے ہوئے، اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کی کوشش کی مگرجب اسکینڈل سامنے آیاتواس سے پہلے کہ حکومت پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا، نکسن کو استعفیٰ پر مجبور کیا گیا۔
ایک اور مثال 2003ء میں امریکہ کا عراق پر حملہ ہے جس کی قیادت صدر جارج ڈبلیو بش نے کی تھی۔ بڑے پیمانے پر ہونے والے عالمی مظاہروں کو نظر انداز کرنے اور ٹھوس شواہد کی کمی کے باوجودبش نے حملہ کیا جو بالآخر خطے کے عدم استحکام اور ISIS جیسے انتہا پسند گروہوں کے عروج کا باعث بنا۔ حقیقت میں یہ تباہ کن فیصلہ علاقے میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھانے اور تیل کے وسائل کو محفوظ بنانے کی خواہش کے تحت کیا گیا تھا۔ حالیہ سالوں میں ہم نے برطانیہ میں بریگزٹ کی شکست جیسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں بورس جانسن جیسے سیاست دانوں نے برطانوی عوام کے معاشی اور سماجی بہبود پر اپنے اپنے عزائم اور نظریاتی ایجنڈوں کو ترجیح دی۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم خود غرض سیاست کے اس چکر کو توڑنے اور ایک عوامی حکومت بنانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کی منتخب کردہ ہو اور عوام کی خدمت کرے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے خود کو ذہنی غلامی سے آزاد کرنا ہوگا اور شخصیت پرستی کے بت توڑنے ہوں گے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے لیڈروں کو، اُن کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت ہے یعنی ہمیں اپنے اردگرد کے معاملات سے باخبر رہنا ہے، ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہے اور اچھی حکمرانی کو فروغ دینے والے افراد، گروہوں اور تنظیموں کی حمایت کرناہے۔
ہمیں سیاست کے متبادل ماڈلز کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے جیسے شراکتی جمہوریت اور کمیونٹی کی قیادت میں فیصلہ سازی، جن میں طاقتور اشرافیہ کے مقابلے میں عام لوگوں کی آوازوں اور ضروریات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بہتر مستقبل بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے قائدین اور خود سے مزید اخلاص کامطالبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاست صرف طاقت، اختیار اور مفادات کا کھیل نہیں ہے بلکہ انسانیت کی خدمت کا اعلیٰ مقام ہے۔