قانون کی حکمرانی ایک بنیادی اصول ہے جو ہر فرد کی سماجی حیثیت، طاقت یا اثر و رسوخ سے بالاتر ہو کر معاشرے میں مساوات، انصاف اور جوابدہی کو یقینی بناتا ہے یہ وہ بنیاد ہے، جس پر جمہوری معاشرے استوار ہوتے ہیں اور اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی مساوی تحفظ، انصاف، احتساب اور آگاہی کو یقینی بناتی ہے، انفرادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور اقتدار میں رہنے والوں کو ان کے اعمال کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل مثالیں موجود ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے قید اور ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود غیر منصفانہ نظام کو چیلنج کیا اور کامیابی سے اس کا خاتمہ کیا۔ قانون کی حکمرانی نے منڈیلا کے حقوق کو تسلیم کرنا یقینی بنایا اور یوں وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ پاناما پیپرز نے عالمی رہنماؤں اور اشرافیہ کے افراد کی جانب سے وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کو بے نقاب کیا۔
قانون کی حکمرانی نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ تحقیقات شروع کی جائیں۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں کچھ افراد اپنے عہدوں سے مستعفی ہوئے اور کچھ کو مقدمات چلانے کے بعد سزا سنائی گئی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی انفرادی حقوق اور وقار کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ شفافیت اور احتساب کو فروغ دیتی ہے اورمعاشی ترقی اور استحکام کی یقینی بناتی ہے۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو ہمیشہ سے اہم چیلنجز کا سامنا رہا ہے ملک کے قانونی نظام کو سست اور بدعنوان سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عوام میں اداروں پر اعتماد کا فقدان ہے۔ طاقتور اور بااثر لوگ اکثر اپنے رابطوں کا استعمال نظام میں ہیرا پھیری کے لئے کرتے ہیں جبکہ کمزور افراد کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لئے حکومت، سول سوسائٹی اور آبادی مل کر کام کریں۔ ایسا کرنے سے شفافیت اور گڈ گورننس کے کلچر کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور شہریوں کا روشن مستقبل یقینی ہو سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور سماجی بدامنی سے دوچار پاکستان کو انصاف، مساوات اور احتساب کو یقینی بنانے کے لئے فوری طور پر ایک مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے۔ قانون کی حکمرانی کواچھی حکمرانی کی بنیاد سمجھا جاتاہے جو لوگوں کے رویے اور طرز حکمرانی دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ جب قوانین کو غیر جانبداری سے نافذ کیا جاتا ہے تو شہری کے دِل میں اتھارٹی کے لئے احترام پیدا ہوتا ہے۔ لوگ حقوق اور فرائض سے آگاہی کے بعد احتساب کا مطالبہ کرنے کے لئے بااختیار ہو جاتے ہیں۔ اخلاقی رویوں کو فروغ ملتا ہے اور سماجی تقسیم ختم ہوتی ہے، جو رواداری اور ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بنتی ہے، جبکہ طرزِحکمرانی پر اس کے مندرجہ ذیل اثرات ہوتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی، لیڈران کو ان کے اعمال کے لئے جوابدہ ٹھہراتی ہے، اقربا پروری اور جانبداری پر قابلیت جگہ لے لیتی ہے۔ اندرونی اور بیرونی استحکام کو یقینی بناتی ہے نیز آزاد عدلیہ، مضبوط مقننہ اور موثر بیورو کریسی اپنے معاملات میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بناتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں کمزور ادارہ جاتی فریم ورک، سیاسی مداخلت، کرپشن، اقربا پروری، آگاہی اور تعلیم کی کمی نمایاں ہیں ایسے میں آگے بڑھنے کے لئے اداروں کو مضبوط بناتے ہوئے عدلیہ، مقننہ اور انتظامی احتساب کو بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے چند دن پہلے افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے اداراتی احتسابی عمل کے تحت ایک لیفٹیننٹ جنرل، دو بریگیڈئیرز سمیت ایک کرنل کو گرفتار کر لیا ہے جن پر ملٹری ایکٹ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ان افراد کا کورٹ مارشل ہوگا۔ یاد رہے کہ پاکستانی فوج ایک منظم ادارہ ہے، جہاں اداراتی خود احتسابی کا عمل کسی بھی جانبداری کے بغیر اپنا کام کر رہا ہے۔
ماضی میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، جہاں اس ادارے نے اپنے اعلیٰ افسروں کا محاسبہ کیا اور جرم ثابت ہونے پر اُنہیں سزائیں دی گئیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ افواجِ پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنے ملک کے عوام کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ چاہے تعلیم کا میدان ہو، حفاظتی ٹیکوں میں معاونت ہو، دہشت گردی کا خاتمہ ہو سیلاب آئے، زلزلہ آئے، انتخابات ہوں یا مردم شماری ہو۔
عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے جب بھی پاکستانی افواج کو آواز دی گئی اس کے جان باز سپاہیوں نے لبیک کہا نیز اس ارضِ پاک کی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے اب تک اپنے ہزاروں افسروں اور جوانوں کی قربانی دے چکی ہے۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے آرمی آفیسرز کو ملک و قوم کی بقاء کا ضامن سمجھا جاتا رہا ہے۔
قدیم تاریخ میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی آرمی آفیسر اپنے حلف سے غداری نہ کرے اور ایسا کرنے کی صورت میں اُنہیں سزا دی جاتی تھی۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ملٹری جنرلز کو اپنے عہدے اور اختیارات کے ناجائز استعمال پرسزائیں دی گئیں۔ جنرل ہنی بل بارکا کو 183 BCE میں غداری کے الزامات کے بعد جلا وطن ہونا پڑا اور جلاوطنی میں ہی وفات پا گئے۔
ایتھنز کے جنرل ایلسی بیاڈس کو 415 BCE اور 406 BCE میں پیلوپونیشین جنگ کے دوران متنازعہ اقدامات لینے پر دو مرتبہ جلاوطن کیا گیا۔ روم کے شہنشاہ ڈومیشن(Domitian) کے خلاف بولنے پر جنرل Gaius Cornelius Tacitusکو جلا وطن ہونا پڑا۔ 705ء عیسوی میں چین کے جنرل وو زیٹیان کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے الزامات کے بعدپہلے معزول کیا گیا اور پھر جلاوطن کر دیا گیا۔
اسی طرح حالیہ عالمی تاریخ میں غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے فوجی جرنیلوں کو دی جانے والی چند سزاؤں کا مختصر جائزہ پیش ہے۔ امریکی جنرل ڈیوڈپیٹریاس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی سوانح نگار میں خفیہ معلومات کو لیک کرنے پر قصوروار ٹھہرایا گیا۔ تحقیقات میں جنرل پیٹریاس نے جرم کا اعتراف کیا اور اُسے سزا سنائی گئی۔ اسی طرح ایک اور امریکی جنرل مائیکل فلن پر الزام تھا کہ انہوں نے قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، ایف بی آئی سے روس کے ساتھ اپنے رابطوں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ جنرل فلن نے اعتراف جرم کیا۔ اگرچہ ان کو بعد میں صدر ٹرمپ نے معاف کر دیا مگر اُن کی فوجی ساکھ شدیدمتاثر ہوئی۔
امریکہ کے ہی جنرل سٹینلے میک کرسٹینلے کو 2010ء میں رولنگ سٹون کے انٹرویو میں متنازعہ ریمارکس دینے پر افغانستان میں کمانڈ سے فارغ کر دیا گیا۔ چلی کے جنرل آگسٹو پنوشے کو1998ء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام پر گرفتار کیا گیا۔ اوپر والی مثالیں بتاتی ہیں کہ دنیا میں جب بھی کسی فوجی افسر کی جانب سے فوجی ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی تو اُس کو تحقیقات کے بعد قصور وار ہونے پر سزا دی گئی ہے، لہٰذا اگر ایسا عمل پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، بلکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے۔