بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق ہے اورحکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ عوام کے مفاد سے براہ راست تعلق رکھنے والی سروسز کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ہمیشہ سے حکومتوں کا اہم کردار رہاہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے سبب یوٹیلٹی بلز کے ہوش رُبا ریٹس سے عوام کی بڑی تعداد براہ راست متاثر ہو رہی ہے مگر ان کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔ عدالتیں سیاسی مقدمات میں الجھی ہیں، حکومتی سیاست دان اقتدار کے مزے لُوٹ رہے ہیں اور اپوزیشن اپنے بچاؤ کے لیے برسرپیکار ہے۔ مظلوم عوام کی حالت زار کو دیکھنے کی بجائے، ریاست کے اہم اداروں کے سربراہان کے لیے دیگر معاملات اہم ہیں۔
سیاسی افراتفری، اخلاقی گراوٹ اورمذہب سے دوری کے دور میں عام آدمی کی زندگی کے معاملات پہلے ہی پریشان کُن ہیں ایسے میں اُن کی زندگیوں پر یوٹیلٹی بلز بھی مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو رہے ہیں جیسے بڑھتے ہوئے یوٹیلٹی بلز کی وجہ سے کم آمدن والے خوراک، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے کم رقم استعمال کرتے ہیں۔ لوگ بلوں کو کم کرنے کے لیے، لائف سٹائل ایڈجسٹمنٹ کے زمرے میں ایئر کنڈیشننگ، اوون، واٹر پمپ، لائٹنگ اور استری جیسی سہولتوں کو کم استعمال کررہے ہیں۔ معاشرے میں گھٹا ہوا معیار زندگی پروان چڑھ رہا ہے، بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے تفریح کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ زیادہ یوٹیلیٹی بلوں کا بوجھ اضطراب، تناؤ اور گھریلو مالیات کو سنبھالنے میں دشواری کا باعث بن رہا ہے۔ زیادہ یوٹیلیٹی بل افراد کو توانائی یا خوراک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کا رجحان شدت اختیار کر رہا ہے۔
ہمارے معاشرے کے افراد سماجی تنہائی کا بھی شکار ہو رہے ہیں کیونکہ اب لوگ یوٹیلیٹی بلز کے اخراجات کی وجہ سے اجتماعات یا تقریبات کی میزبانی کرنے سے گریز کر تے ہیں یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم توانائی کی کھپت کا رجحان، سماجی تعلقات کو محدود کر رہا ہے۔ یوٹیلیٹی بلز کے بارے میں مسلسل فکر ناامیدی، مایوسی اور خوشی میں کمی کا باعث بن رہی ہے اور بظاہرمعاشرے کاہر فرد نفسیاتی طور پربھی براہ راست متاثر ہورہا ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلز، افراد کو اضافی ملازمتیں یا زیادہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس سے تعلیم، ذاتی ترقی اور تفریحی سرگرمیوں کے لیے کم وقت رہ جاتا ہے۔ یوٹیلیٹی بلوں کا بوجھ غیر متناسب طور پر کم آمدنی والے گھرانوں کو متاثر کرتا ہے جس سے معاشی عدم مساوات بڑھ جاتی ہے۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ مختلف ممالک کے حکمرانوں نے اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے۔ توانائی کے بحران سے بچنے کے لیے ماضی میں دنیا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے کئے گئے چند اقدامات مندرجہ ذیل تھے۔ حکومتوں نے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے انسانی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پاور پلانٹس، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس اور گیس پائپ لائنوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔
ریگولیشن اور پالیسی فریم ورک پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حکومتوں نے منصفانہ قیمتوں، حفاظتی معیار اور بنیادی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ریگولیٹری ادارے اور پالیسیاں قائم کیں۔ حکومتوں نے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے بنیادی سہولیات کو سستی بنانے کے لیے سبسڈی اور فنانسنگ کا نظام بنایا۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو تیز کرنے اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ قائم کی گئی۔ اب ہم موجودہ دور میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک کی طرف سے اٹھائے گئے چند اہم اقدامات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
جرمنی کے "Energiewende" پروگرام کے تحت ایندھن پر انحصار کم کرنے اور توانائی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی اور ہوا کی طاقت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ سنگاپور کے "سمارٹ نیشن" پروگرام کے تحت توانائی کے استعمال کو بہتر بنانے، فضلہ کو کم کرنے اور ملک کا شاندارمستقبل بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا نا ہے۔ ڈنمارک کے قابل تجدید توانائی کے اہداف کا مقصد ہوا سمیت توانائی کے دیگر قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی ہے جس سے توانائی کی پیداوار کو صاف ستھرا اور زیادہ موثر بنایا جاسکے گا۔
آسٹریلیا کی "قومی توانائی کی گارنٹی" پالیسی کا مقصد قابل تجدید ذرائع اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دے کر توانائی کی کھپت اور اخراج کو کم کرنا ہے۔ سویڈن کاربن کے اخراج پر ٹیکس لگاتا ہے اور اپنے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لیے قابل تجدید ذرائع میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ نے شمسی، ہوا اور پن بجلی کو ترجیح دیتے ہوئے 2035 تک 100% قابل تجدید بجلی کا ہدف بنارکھا ہے۔
اُوپر والی تحریر پڑھنے کے بعد چند قارئین کے ذہن میں یقیناً یہ سوال اُبھرتا ہوگا کہ قابل تجدید توانائی سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب ہے کہ قابل تجدید توانائی سے مراد وہ توانائی ہے جو قدرتی وسائل سے پیدا ہوتی ہے دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ کام سورج کی شعاعوں سے پیدا ہونے والی توانائی یعنی شمسی توانائی اورہوا سے پیدا ہونے والی توانائی پر ہو رہا ہے اس کے علاوہ دیگرقدرتی وسائل سے بھی توانائی حاصل کی جا رہی ہے جیسے جیوتھرمل انرجی، بایوماس انرجی اور ٹائیڈل انرجی شامل ہیں۔ اب ہم جیوتھرمل انرجی، بایوماس انرجی، اور ٹائیڈل انرجی کو چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
جیوتھرمل پاور پلانٹ سے مراد ایک ایسا پلانٹ جو زمین کے اندرونی حصے کی حرارت کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہو۔ جیسے کیلیفورنیا میں Geysers. بایوماس انرجی کے حصول کے لیے لکڑی کے برادے کو بوائلر میں جلایا جاتا ہے تاکہ عمارتوں کو گرمی اور رہائشیوں کوگرم پانی فراہم کیا جا سکے۔ نائیڈل انرجی کے حصول کے لئے بہتے ہوئے پانی کی توانائی کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے جیسا کہ امریکہ میں ہوور ڈیم اور فرانس میں رینس ٹائیڈل پاور اسٹیشن۔
تاریخ کی مثالوں اور جدید دور میں مختلف ممالک کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے سبق سیکھ کر پاکستانی حکومتیں اپنے شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتی ہیں اگر وہ توانائی کے حصول کے لیے قدرتی وسائل کو استعمال کریں۔ ہماری حکومت کو اپنی ترجیحات کا تعین ازسرنو کرنا ہوگا تاکہ وہ ایک بہتر عوامی حکومت کہلائی جا سکے۔