ابن حجر، امام عسقلانی، امام بخاری و دیگر آئمہ حدیث سے روایت ھے حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا "اے عائشہ! اس دنیا میں خدیجہ کا بدل کوئی نہی ہوسکتا۔ میرے اعلان نبوت کے بعد جب تمام دنیائے کفر و شرک میری رسالت کا انکار کر رہی تھی خدیجہ ہی وہ واحد ہستی تھی جو مجھ پر ایمان لائی، جب میرا کوئی ذریعہ معاش نا تھا اور تجارتی کاروبار نبوت و رسالت کی ذمہ داری سے رک گیا تھا یہ خدیجہ ہی تھی جنہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور فریضہ نبوت کی بجا آوری میں میری تائید و نصرت کی" پھر فرمایا "یہ خدیجہ ہی تھی جنہیں اللہ نے میری اولاد کے لیے منتخب فرمایا"(صحیح بخاری کتاب مناقب)۔
حضرت خدیجہؓ قیامت تک کے لیے خواتین کے لیے بطور کامیاب بزنس و یمن، معاملہ فہم، مردم شناس اور دور اندیش مینارہ نور ھیں آپؓ کی ذات حقوقِ نسواں کی وہ روشن تابندہ مثال ھے۔ جس کی نظیر کہیں سے ملنا ناممکن ھے۔
خواتین کو پسند کا حق، معاشی آزادی کا خواب، وفا شعار بیوی کا روپ، غم گسار ساتھی کی جھلک، ایک مثالی ماں کا کردار، دکھ سکھ میں استقامت کا سنگ میل کیا کچھ نہی خوبیاں آپؓ کی ذات میں پنہاں ھیں۔
بلاشبہ آپؓ قریش کی اعلی نسب متقی، باکردار اور پاکباز خاتون تھیں۔ ایک کامیاب کاروباری شخصیت کی طرح مکہ مکرمہ میں رہ کر امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کامیابی سے چلا رہی تھیں۔ اس کام کے لیے اپنے فہم و فراست سے موزوں افراد کو چنتی اور انہیں دوسرے ممالک میں طے شدہ معاوضے کے ساتھ سامان تجارت دے کر بھیجتی تھیں۔
آپؓ بیوگی کی زندگی گزار رہی تھیں آپؓ دو بار رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئی۔ آپؓ کی شادی اس وقت کے دو معزز افراد عتیق بن عایذ المخزومی اور أبو ھالہ ھند بن ھند بن زرارہ التمیمی سے یکے بعد دیگرے ہوئی تھی، اوّل الذکر سے ایک بیٹی تھی جو أم محمد کے نام سیرت کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہے اور دوم سے ایک بیٹا تھا جو ھند بن ھند کے نام سے منقول ہے، اور دونوں شوہروں نے ہی وفات پائی۔
تاریخ کے مستند کتابوں سے ثابت ہے نبی کریم ﷺ کی صداقت، امانت اور شرافت کی شہرت سن کر آپؓ کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کا مال تجارت کے لیے حباشہ کے بازار میں لے گے اور تجارتی سفر سے واپسی پر آپؓ کے غلام میسرہ نے رسول اللہ ﷺ کی وہ صفات بیان کی جن کا آپ نے دوران سفر اس کا ادراک کیا تھا دوران سفر تجارت ایک راہب جو شاید وہ گزشتہ آسمانی کتاب کا کوئی عالم تھا اور اُس نے آپ ﷺ کو پہچان لیا تھا، اس نے میسرہ سے علیحدگی میں ملاقات کی، اور آپ ﷺ کی بابت کہنے لگا:
"میسرہ! یہ نبی ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہی ہے جن کا ذکر ہمارے راہب اپنی کتابوں میں پاتے ہیں"۔
میسرہ نے اس کی اس بات کو ذہن نشین کر لیا۔ راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ سیدہ خدیجہؓ کے دو اونٹ بہت زیادہ تھک گئے تھے اور چلنے کے قابل نہ رہے، ان کی وجہ سے میسرہ قافلے کے پیچھے رہ گیا، نبی کریم ﷺ قافلے کے اگلے حصے میں تھے۔ میسرہ ان اونٹوں کی وجہ سے پریشان ہوا تو دوڑتا ہوا اگلے حصے کی طرف آیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں آپ ﷺ کو بتایا۔ آپ ﷺ اس کے ساتھ ان دونوں اونٹوں کے پاس تشریف لائے، ان کی کمر اور پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا۔ کچھ پڑھ کر دم کیا۔ آپ ﷺ کا ایسا کرنا تھا کہ اونٹ اسی وقت ٹھیک ہوگئے اور اس قدر تیز چلے کہ قافلے کے اگلے حصے میں پہنچ گئے۔ اب وہ منہ سے آوازیں نکال رہے تھے اور چلنے میں جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔
پھر قافلے والوں نے اپنا سامان فروخت کیا۔ اس بار انہیں اتنا نفع ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، چنانچہ میسرہ نے آپ ﷺ سے کہا:
"اے محمد ﷺ! ہم سالہا سال سے سیدہ خدیجہؓ کے لئے تجارت کر رہے ہیں، مگر اتنا زبردست نفع ہمیں کبھی نہیں ہوا جتنا اس بار ہوا ہے"۔
آخر قافلہ واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ میسرہ نے اس دوران صاف طور پر یہ بات دیکھی کہ جب گرمی کا وقت ہوتا تھا اور نبی کریم ﷺ اپنے اونٹ پر ہوتے تھے تو بادل دھوپ سے بچانے کیلیے آپ ﷺ پر سایہ کیے رہتے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے میسرہ کے دل میں آپ ﷺ کی محبت گھر کر گئی اور یوں لگنے لگا جیسے وہ آپ ﷺ کا غلام ہو۔
جب آپ ﷺ مکہ مکرمہ واپس آئے تو حضرت خدیجہؓ نے ایک حیران کن روح پرور منظر دیکھا جب آپ ﷺ دوپہر کے وقت مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ ﷺ باقی قافلے سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ آپ ﷺ سیدھے حضرت خدیجہؓ کے گھر پہنچے۔ وہ اس وقت چند عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے دور سے آپ ﷺ کو دیکھ لیا۔ آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور بادل آپ ﷺ پر سایہ کئے ہوئے تھے۔
حضرت خدیجہؓ نے یہ منظر دوسری عورتوں کو بھی دکھایا۔ وہ سب بہت حیران ہوئیں۔
اب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو تجارت کے حالات سنائے۔ منافع کے بارے میں بتایا۔ اس مرتبہ پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا تھا۔ حضرت خدیجہؓ بہت خوش ہوئیں۔ انہوں نے پوچھا:
"میسرہ کہاں ہے؟"
آپ ﷺ نے بتایا: "وہ ابھی پیچھے ہے"۔
یہ سن کر سیدہؓ نے کہا: "آپ ﷺ فوراً اس کے پاس جائیے اور اسے جلد از جلد میرے پاس لائیے"۔
آپ ﷺ واپس روانہ ہوئے۔ حضرت خدیجہؓ نے دراصل آپ ﷺ کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ پھر سے وہی منظر دیکھنا چاہتی تھیں۔ جاننا چاہتی تھیں کیا اب بھی بادل ان پر سایہ کرتے ہیں یا نہیں۔ جونہی آپ ﷺ روانہ ہوئے، یہ اپنے مکان کے اوپر چڑھ گئیں اور وہاں آپ ﷺ کو دیکھنے لگیں۔ آپ ﷺ کی شان اب بھی وہی نظر آئی۔ اب اُنہیں یقین ہوگیا کہ اُن کی آنکھوں نے دھوکا نہیں کھایا تھا۔ کچھ دیر بعد آپ ﷺ میسرہ کے ساتھ اُن کے پاس پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے میسرہ سے کہا:
"میں نے ان پر بادلوں کو سایہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، کیا تم نے بھی کوئی ایسا منظر دیکھا ہے"۔
جواب میں میسرہ نے کہا: "میں تو یہ منظر اس وقت سے دیکھ رہا ہوں جب قافلہ یہاں سے شام جانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ "
اس کے بعد میسرہ نے نسطورا سے ملاقات کا حال سنایا۔ دوسرے آدمی نے جو کہا تھا، وہ بھی بتایا۔ جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھانے کے لیے کہا تھا، پھر اونٹوں والا واقعہ بتایا۔ یہ تمام باتیں سننے کے بعد سیدہ خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو طے شدہ اجرت سے دوگنا دی۔ جب کہ طے شدہ اجرت پہلے ہی دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا تھی۔
(جاری ھے)