امت کی پہلی، ماں اور گلدستہ، اہلبیت کے پہلے، معطر پھول کا شرف حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کے حصہ میں آیا۔
حقوق نسواں میں حضرت خدیجہؓ کا روشن پہلو۔
حضرت خدیجہ الکبریٰؓ بطور ایک کاروباری شخصیت اپنی معاملہ فہمی، دور اندیشی، مردم شناسی اور اپنے کاروبار میں بہترین ٹیم ورک کی صلاحیتوں کو اپنے پختہ کردار سے اہل مکہ کو گرویدہ تو کر چکی تھیں لیکن جو انکا کردار بطور ایک، شریک حیات سامنے آیا اس پر لکھتے ہوئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ آپؓ کی سیرت کا یہ ایسا پہلو ہے جس میں خواتین اور مردوں کے لیے ایک مینارہ نور نظر آتا ہے۔ جس کی روشنی میں ہر شادی شدہ جوڑا اپنی ازدواجی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔
سیماب اکبر آبادی نے حضرت خدیجہؓ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ: "حضرت خدیجہؓ حسین بھی تھیں، دولت مند بھی تھیں، شریف الخیال بھی تھیں اور سب سے زیادہ جو فضیلت ان میں تھی وہ یہ ہے کہ اپنے شوہر کی بے حد، اطاعت گزار تھیں"۔
آپؓ نے خواتین کے حقوق کی زندہ اور روشن مثالیں قائم کیں۔
۔ آپؓ خواتین کے حقوق کے لئے بطور معاشی تحفظ ایک کامیاب، بزنس ویمن نظر آتی ہیں۔
۔ آپؓ، شریک حیات کے چناؤ میں خاوند کے معیار اور فراست سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔ اور خواتین کو زندگی کے ساتھی کے چناؤ پر اس کا پیمانہ بھی بتاتی ہیں۔
۔ آپؓ بطور بیوی اپنے جائز خانگی حق اور بہتر ازدواجی زندگی کا اصول بھی وضع کر دیتی ہیں۔ جس کے اثرات معاشرتی، سماجی لحاظ سے دور رس ثابت ہوتے ہیں۔
جن سے اکثر خواتین کو محروم رکھا جاتا ہے اور وہ زندگی کا سفر گھٹن زدہ ماحول، نفسیاتی تناؤ جس کے اثرات دونوں شادی شدہ جوڑے اور انکی نسل کی پوری زندگی پر نمایاں رہتے ہیں۔
جس کا ذکر مولانا طاہر القادری نے اپنی کتاب سیرت خدیجہؓ میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔
"حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد آپ ﷺ انہیں اپنے چچا کے گھر لے آئے، جہاں آپ اب تک مقیم تھے۔ آپ نے اپنی مبارک فرخندہ شادی کی پہلی رات اسی گھر میں بسر کی۔ لیکن اپنے غمگسار شفیق چچا کی مالی حالت کے پیش نظر مستقلاً رہنا پسند نہیں کیا اور اگلے ہی دن حضرت خدیجہؓ کے مشورہ سے الگ گھر میں سکونت اختیار کر لی"۔
یہاں علامہ طاہر القادری سیرت النبی سے ازدواجی زندگی کا ایک نقطہ اجاگر کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔ "ہر چند آپ ﷺ کے اپنے چچا کے ساتھ تعلقات حد درجہ شفقت و محبت کے آئینہ دار تھے، آپ ﷺ نے اپنی بیوی کے ازدواجی حقوق کو مقدم رکھا اور شادی کے بعد ایک علیحدہ زندگی کا آغاز کیا"۔
آگے وہ لکھتے ہیں"حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے اس پہلو سے ان والدین کے لیے سبق ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کے بعد خوامخواہ یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی ان کے ہاں ہی گزار دے گا خواہ انکی بہو کی مرضی اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔ اس سلسلے میں ان کی بے جا ضد کے اثرات چنداں خوشگوار ثابت نہیں ہوتے اور پرسکون ازدواجی زندگی میں تلخیاں گھولنے کا مؤجب بنتے ہیں۔
اگر عورت شادی کے بعد علیحدہ زندگی گزارنے کی متمنی ہو تو والدین کو اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر اسے انا اور، جھوٹی عزت و وقار کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہیے جو بسا اوقات بگاڑ کے نتیجے میں قطع رحمی پر منتج ہو جاتے ہیں۔ ان عوامل کے سدباب کے لیے نوجوانوں کو مخلوط گھروں میں رہنے پر مجبور کرنے کے بجائے علیحدہ گھروں میں آباد کر دینا عین دانش مندی کا تقاضا ہے تاکہ ازدواجی زندگی میں پیار و محبت اور باہمی اعتماد کی فضا قائم رہے"۔
جاری ہے۔