عرب میں عورتوں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی شادی کے متعلق معاملات پر خود بات کر سکتی تھیں۔
مولانا منظور نعمانی اپنی کتاب معارف الحدیث میں لکھتے ہیں۔ "نبی کریم ﷺ نے نفیسہ کے پیغام کا ذکر حضرت ابوطالب سے کیا اور اس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے نفیسہ کو جواب دے دیا اگر خدیجہ اس پر آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔
نفیسہ نے آکر اس کی اطلاع حضرت خدیجہؓ کو دی، پھر حضرت خدیجہؓ نے نفیسہ ہی کے ذریعے نبی کریم ﷺ کو بلوا کر براہ راست بھی آپ سے بات کی، اس گفتگو میں ہی طے ہوگیا آپ ﷺ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن میرے یہاں آ جائیں۔ " (معارف حدیث جلد نمبر 8 صفحہ 275)
مقررہ تاریخ پر حضرت ابوطالب روسائے خاندان کو لے کر جن میں حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے حضرت خدیجہؓ کے مکان پر پہنچ گئے۔ حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد اور ورقہ بن نے نوفل نے بارات کا استقبال کیا۔ حضرت ابوطالب نے خطبہ نکاح پڑھا جسے علامہ طاہرالقادری نے اپنی کتاب سیرت حضرت خدیجہ الکبریٰؓ میں نقل کیا ہے
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد حضرت اسماعیل کی نسل سردار معد کی صلب اور سردار مضر کی اصل سے پیدا فرمایا اور ہمیں خانہ کعبہ کا خادم اور ہمیں حرم شریف کا منتظم بنایا ہمیں ایسا گھر دیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم دیا جو امن کا گہوارہ ہے اور ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا۔
میرا بھتیجا محمد بن عبداللہ علم و حکمت اور فضل و شرف میں بے مثل ہے اگرچہ اس کے پاس ظاہری مال کم ہے مگر اس مال کی حیثیت ہی کیا یہ تو ایک ڈھلتی چھاؤں ہے انکی نسبی قرابت داری سے آپ آگاہ ہیں چنانچہ انہوں نے خدیجہ بنت خویلد کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کی ہے اور اتنا اتنا مہر معجل اور مئوجل (بیس اونٹ) ادا کیا ہے ان کا مستقبل درخشاں اور عالی شان ہے"۔
جب حضرت ابوطالب خطبہ ختم کر چکے تو ورقہ بن نوفل نے خطبہ پڑھا۔
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ایسا ہی پیدا کیا جیسا کہ آپ نے بتایا اور ان لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی جن کو آپ نے شمار فرمایا بے شک ہم عرب کے قائد و سردار ہیں اور آپ اس سیادت کے اہل ہیں کوئی خاندان آپ کی فضیلت کا منکر نہی ہے اور نا ہی کوئی آپ کے فخر و شرف کو چیلنج کرتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے دل میں آپ کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنے کی خواہش و رغبت پیدا ہوئی ہے۔ پس تم گواہ ہو جاؤ اے گروہ قریش! کہ میں نے "400 دینار حق مہر" کے عوض محمد بن عبداللہ کے ساتھ خدیجہ بنت خویلد کا نکاح کر دیا۔
یہ ازدواجی خطبہ پڑھ کر ورقہ بن نوفل چپ ہو گئے حضرت ابوطالب نے کہا۔ اے ورقہ میں چاھتا ہوں خدیجہ کے نکاح میں اس کا چچا بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جائے۔
یہ سن کر عمرو بن اسد نے اسی طرح کیا۔ بولے "اے گروہ قریش! تیار ہو جاؤ کہ میں نے محمد بن عبداللہ کے ساتھ خدیجہ کا نکاح کر دیا"۔
حضور اکرم ﷺ نے نکاح قبول کیا اور روسائے قریش نے گواہی دی۔ (زرقانی علی المواہب)
نکاح کے وقت نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔
حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی عمر کی تحقیق کے دوران انکی عمر کے بارے میں دو روایات ہیں۔ کتاب طبقات ابن سعد (ت211ھ) جس میں ایک روایت میں انہوں نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے کہ نکاح کے وقت خدیجہؓ کی عمر (40) سال تھی اور ایک روایت رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ نکاح کے وقت خدیجہؓ کی عمر 28 سال تھی لیکن یہ دونوں روایات کمزور ہیں پہلی روایت کے سند میں واقدی اور دوسری کی سند میں ھشام الکلبی ہے اور جرح وتعدیل کے کتابوں میں دونوں کو متروک الحدیث کہا گیا ہے۔
اجماع امت یہی ہے آپؓ کی عمر مبارک بوقت نکاح 40 سال تھی۔ آپؓ کو اس شادی سے جتنی خوشی اور مسرت ملی اس کا احوال مختلف کتب میں آتا ہے مولانا طاہر القادری سیرت خدیجہؓ میں لکھتے ہیں۔ "تمام غلام آزاد کر دیئے تاکہ یہ شادی ان کے لیے یادگار بن جائے اور ساری زندگی خوش ہوتے اور دعائیں دیتے رہیں۔ کنیزوں کو حکم دیا خوب دف بجا بجا کر مسرت کا اظہار کریں۔ آپؓ نے آپ کی شریک حیات بننے کی خوشی میں ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دی"۔
یہاں سے حضرت خدیجہؓ کا وہ مثالی کردار طبقہ نسواں کے لیے افق پر طلوع ہوتا ہے۔ یہ زندگی کا حصہ قیامت تک کے لیے ایک وفا شعار بیوی کا استعارہ بن کر چمکتا رہے گا۔ آپؓ نے عرض کی "میرے آقا ﷺ! آپ اس کے مالک ہیں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں میرا اس میں کوئی عمل دخل نہی ہوگا"۔
نکاح کے بعد نبی کریم ﷺ نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا ایک روایت کے مطابق ایک اونٹنی، ایک روایت کے مطابق دو اونٹنیوں سے رشتے داروں اور احباب کی ضیافت کی گئی۔
جاری ھے۔۔