دکھ، سکھ، الجھن، اطمینان، کامیابی اور ناکامی کے موقع پر جو مرد کو دلاسہ، راہنمائی اور اسے اطمینان قلب سے روشناس کروانا یہ ایک بہترین شریک حیات کا وصف ہوتا ہے۔
حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کو اس معاملے میں دنیا کی ہر عورت پر سبقت حاصل ہے۔ آپؓ کی سیرت کے اس پہلو پر اپنے اور غیر کیا سب بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ایک غیر مسلم جرمن مؤرخ اسپرنگر نے یہاں تک کہہ دیا "اگر خدیجہ نہ ہوتیں تو آںحضرت ﷺ پیغمبر ہی نہ ہوتے"۔
آپؓ کا سب سے خوبصورت پہلو نبی کریم ﷺ کی بعثت نبوی کے موقع پر ظاہر ہوتا ہے۔ جس کا اظہار نبی کریم ﷺ ہمیشہ کرتے رہے۔ جب آپ ﷺ نزول وحی سے پہلے غار حرا میں کہیں کہیں دن غور و فکر میں رہتے تو آپؓ اس سخت اور کھٹن راستے سے آپ ﷺ کو کھانا پہنچاتی اور آپ کا حد درجہ خیال رکھتی۔ آپؓ کا سب سے بہترین کردار جو قیامت تک آنے والی ہر عورت کے لیے ضرب المثل ہے۔ جو نزول وحی سے آپ ﷺ کی حالت کو دیکھتے ہوئے آپؓ نے ادا کیا۔ آپؓ کے الفاظ آپؓ کی دلجوئی آپؓ کی شخصیت کو آفاقی بناتی ہے۔
سیرت کی کتابوں میں آتا ہے۔ جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ بنائے تقاضا بشریت گھبراہٹ کا شکار ہوئے اور گھر آئے اس کیفیت کو سیرت کی کتاب الرحیق المختوم کچھ اس طرح بیان کرتی ہے۔
"آپ ﷺ ان آیات کے ساتھ پلٹے۔ آپ ﷺ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا۔ مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔ انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کے آپ ﷺ کا خوف جاتا رہا۔ "
یہاں آپؓ کا کردار دیکھیں انہوں نے خود کو گھبراہٹ کا شکار کرنے کے بجائے اپنے محبوب شوہر کی کیفیت کو اعتدال پر لانے کے لیے سازگار ماحول کی فضا قائم کی۔ یہ عمل ہی آپؓ کا قیامت تک آنے والی خواتین کے لیے اسوہ ہے۔ آگے اس سے بھی خوبصورت پہلو سامنے آتا ہے جو آج تک کسی بھی شریک حیات کی زندگی میں نہی ملے گا۔ کیا دلاسہ کے الفاظ، موقع کی مناسبت سے دلجوئی یہی کمالات تھے جس کی بنا پر اللہ رب العزت نے آپؓ کو نبی آخرالزماں ﷺ کی بطور شریک حیات منتخب کیا۔
الرحیق المختوم میں آتا ہے۔ "اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا، مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے"۔
فدا ابی و امی امت کی اس ماںؓ پر نبی کریم ﷺ کو کہتی ہیں۔
"قطعاً نہیں! بخدا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دست کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔ "
پھر آپؓ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی اور کہا بھائی جان اپنے بھتیجے کی بات سنائیں۔ نبی کریم ﷺ نے ساری بات انہیں بتائی تو ورقہ بن نوفل نے کہا۔ یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰؑ پر اترا تھا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کو حوصلہ دینا اور ورقہ بن نوفل کے پاس لے جانا آپؓ کا یہی وہ کمال تھا اور آپ کی خصوصیات تھیں جن تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اور امت میں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کا شرف بھی حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کو حاصل ہے۔
اور اسی تصدیق کی بدولت عورتوں میں صدیقہ الکبریٰ کا لقب آپؓ کو اور مردوں میں صدیق کا لقب حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حصے میں آیا۔ اسی لیے حضرت خدیجہ کے ساتھ کبریٰ لفظ لکھا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔