امہات المومنین کو ایک وصف اور خصوصیت یہ بھی حاصل تھی کہ اللہ نے آپ ﷺ کی بیویوں کو زوجہ کہہ کر پکارا۔
صاحبان تفسیر کہتے ہیں زوجہ وہ ہوتی ہے جو شریک حیات بھی ہو اور شریک نظریات بھی ہو۔ نوحؑ کی بیوی کو زوجہ نہی کہا گیا امرتہ کہا گیا جس کا مطلب ہے کہ شریک حیات تو ہو مگر شریک نظریات نہ ہو، جیسے امرتہ لوط، امرتہ فرعون وغیرہ وغیرہ۔ زوجہ کی تعریف پر حضرت خدیجہؓ اور دیگر امہات المومنینؓ کو دیکھا جائے تو مکمل آپ ﷺ کے خیالات اور نظریات کے ساتھ متفق تو تھیں ہی آپ ﷺ کی کار نبوت میں مددگار اور معاون بھی تھیں۔
آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے اللہ نے خدیجہ کی محبت میرے وجود میں ایسے ڈالی ہے جیسے پانی رگوں کو سیراب کرتا ہوا آدمی کو تروتازہ کرتا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں نبی کریم ﷺ ہمیشہ حضرت خدیجہؓ کی وفاؤں کو یاد کرتے تھے۔ کثرت سے انکا ذکر فرماتے۔
آپؓ کو یہ بھی فضیلت ہے امت میں اس روح زمین پر سب سے پہلے جس نے کلمہ پڑھا اور نماز ادا کی وہ سیدہ خدیجہؓ ہیں۔
حضرت خدیجہ الکبریؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے آپ ﷺ کی ازواج میں حضرت ماریہ قبطیہؓ کے علاوہ اللہ نے 6 بچے عطا کیے۔ دو بیٹے قاسمؓ و عبداللہ جن کا لقب طیب طاہر تھاؓ آپؓ کے سامنے وفات پا گئے۔ دو بیٹیوں حضرت زینبؓ اور حضرت رقیہؓ کی شادی اپنے سامنے کی۔ حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ ؓم اس وقت چھوٹی تھیں۔
حضرت عائشہؓ انکی محبت کو اس انداز سے بیان کرتی ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی ایک بہن ہالہ بنت خویلدؓ کی آواز حضرت خدیجہؓ سے مشابہ تھی وہ آپ ﷺ سے ملنے مدینہ آئیں اور گھر داخل ہوتے وقت اجازت طلب کی۔ آگے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ انکی آواز سنتے ہی بے ساختہ حضرت خدیجہؓ یاد آ گئی اور وہی زمانہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب وہ زندہ تھیں۔ اور ایک عجیب کیفیت آپ ﷺ پر طاری ہوگئی۔ وہ اندر آئیں تو انہیں دیکھ کر آپ ﷺ بے ساختہ فرمانے لگے "اوہ خدایا! یہ تو ہالہ ہیں۔ "
آپ ﷺ انکی سہیلیوں کو جب بھی جانور ذبح ہوتا ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت پہنچاتے۔
ان سے منسوب ہر فرد اور چیز سے آپ ﷺ کو قلبی لگاؤ اور اپنائیت تھی۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں"ہمارے گھر ایک معمر خاتون آئیں حضور اکرم ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک کمال التفات اور محبت و شفقت سے محو گفتگو رہے۔ آپ ﷺ نے انکی اور انکے گھر والوں کی خیریت دریافت کی اور پوچھا جب ہم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو آپ کن کن حالات سے دوچار ہوئے اور کیا کیا واقعات پیش آئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں آپ ﷺ اتنی چاہت اور اپنائیت سے کرید کرید کے سوال پوچھتے رہے کہ مجھے اس بڑھیا پر رشک آنے لگا۔ جب وہ چلی گئی تو میں نے پوچھا "آقا! وہ کون تھی؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا "وہ خدیجہ کی سہیلی تھی"۔ جب ہم مکہ میں رہتے تھے تو وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی خدیجہ اس سے بہت پیار کرتی تھی"۔
ابن ہشام میں ایک واقعے سے آپ ﷺ کی والہانہ محبت کا پتا چلتا ہے جب انکے داماد بدر میں قیدی (ابو العاص اس وقت تک اعتقادی کافر تھے) کی حیثیت سے آئے اور ان کے فدیہ کے طور پر حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کا ہار آپ ﷺ کی بیٹی نے بھیجا تو آپ ﷺ رنجیدہ ہو گئے۔
روبنیہ کوثر نے آپؓ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
"اللہ کے محبوب کو محبوب ہے سب سے
لاریب تیری ذات تیرا نام خدیجہ
ہے خانہ محبوب خدا تجھ سے معطر
تو باغ رسالت کی گلفام خدیجہ
لاریب معیت میں کڑے وقت کی ساتھی
لاریب تو ہے محسن اسلام خدیجہ
آزردہ ہوا کبھی بھی دل میرے نبیؐ کا
باحسن ادب تو نے لیا تھام خدیجہ
تاحشر! خوشا! سرور کونین کے ہمراہ
زندہ ہے ہر اک آن تیرا نام خدیجہ
اسلام کو طاقت تیرے ایثار نے بخشی ہے
خوب تیری خدمت اسلام خدیجہ