کرکٹ پہلے مخصوص ممالک کھیلا کرتے تھے، تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پہلے کرکٹ ان ہی ممالک میں کھیلی جاتی تھی جہاں جہاں تاج برطانیہ کاراج تھا۔ پھر بدلتے ہوئے حالات نے اسے تقویت بخشی اور یہ مخصوص سرحدوں سے پھلانگتا ہوا آج دنیا کے کم وپیش تمام ممالک میں دیکھا اور کسی حد تک کھیلا جاتا ہے۔ آج کرکٹ دنیا میں سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے کھیلوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے جبکہ پہلے نمبر پر فٹبال ہے۔ اس مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ کرکٹ کا ایشیائی ممالک میں بڑھتا ہوا رجحان ہے اور ایشیاء سات براعظموں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا براعظم ہے یہاں دنیا کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد (60٪) حصہ رہتا ہے اور اس ساٹھ فیصد میں سے تقریباً چالیس فیصدکرکٹ کے متوالے ہیں۔ یعنی کرکٹ کے فروغ میں سب سے بڑا حصہ ایشیاء کا ہے اورایشاء پر مکمل حکمرانی کا خواب ہمارا پڑوسی ملک نا جانے کب سے آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے۔ بھارت کے بعد پاکستان، سری لنکا، بنگلادیش اور اب افغانستان بھی بین الاقوامی مقابلوں میں باقاعدہ شرکت کر رہے ہیں۔ یعنی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے دس باضابطہ ممبران میں (جوکہ ابھی عالمی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں) سے پانچ کا تعلق ایشیاء سے ہے۔ ایشیائی باشندے آج دنیائے کرکٹ کی ہر ٹیم میں تقریباً موجود ہیں اور اس کھیل کو دنیا میں ناصرف پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اپنے نا صحیح کسی اور ملک کی نمائندگی تو کر رہے ہیں۔ سچ پوچھئے تو قوم نے جذباتی ناہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور تھا۔ قوم کو بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ ہم میں تاریخ بدلنے کا ناتو حوصلہ ہے اور نا ہی کوئی خاص عزم، یہ اجتماعی سوچ اور فکر کی بات ہے اس کا کسی کی انفرادی تاریخ بدلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جنوبی ایشیاء کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور بولنے والوں کا علاقہ ہے یہاں کرکٹ ساحل سمندر پر بھی دیکھی جاسکتی ہے، لق و دق صحراؤں میں بھی کرکٹ کا بول بالا ہے اور سنگلاخ پہاڑوں میں کرکٹ کھیلنے والو ں نے تو دنیا کو اپنی بلے بازی اور گیند بازی سے پہلے ہی مرعوب کر رکھا ہے، جن میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے شاہد خان آفریدی سر فہرست ہیں اور اس فہرست کی طوالت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج ترقی کی بلندیوں کو چھوتی اس دنیا نے جہاں ہر پرانی چیز کو نئی چیز سے بدل دیا ہے وہیں کرکٹ کے کھیل میں بھی برق رفتاری آگئی ہے آج پانچ روزہ ٹیسٹ میچ بھی تین تین دن میں فیصلے کیساتھ ختم ہوجاتے ہیں۔ کرکٹ کی جدت اور اسے کم وقت میں ختم کرنے کی جستجو نے چھ روزہ میچوں سے ٹی 10 میں لاکر کھڑا کردیاہے۔ یعنی کرکٹ کا مزاج یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ملکوں میں کرکٹ بورڈ اب باقاعدہ ایک منظم ادارے بن چکے ہیں اور ان اداروں میں کھلاڑیوں کو خام مال سے تیار شدہ مال میں تبدیل کرنے کی تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن میں میکانکی آلات بھی شامل ہیں۔ جس طرح سے انجینئر اور ڈاکٹربنائے جاتے ہیں دنیا میں آج اتنی ہی محنت ایک کرکٹ کے کھلاڑی کیساتھ کی جارہی ہے۔ جہاں کرکٹ کھیلنے کی صلاحتیں ایک کھلاڑی اپنے ساتھ لاتا ہے وہیں دیگر دوسرے معاملات سے نمٹنے کی صلاحتیں اسمیں ڈالنے کا کام کرکٹ کا ادارہ کرتا ہے۔ کرکٹ آج ایک باقاعدہ ادارے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس ادارے کے لوگ (جن میں کھلاڑیوں سے لیکر دیگر تمام منسلک افراد شامل ہیں)ملک و قوم کا وقار ہوتے ہیں ان تمام لوگوں کی کارگردگی ٹیم کی کارگردگی سے مماثلت رکھتی ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑی اب پیشہ ور کھلاڑی بن چکے ہیں کھیل کے میدان سے لیکر انکی نجی زندگی کے امور تک عام آدمی کی نظر ہوتی ہے۔ کھلاڑی یہ کہنے کا جواز نہیں رکھتے کہ ہماری بھی کوئی نجی زندگی ہے کیونکہ یہ قوم کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں بلکل اس سپاہی کی طرح جسے کوئی جانتا بھی نہیں لیکن وہ اپنا فرض ہماری حفاظت کیلئے سرحد پر دشمن کے توپوں کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔
بطور پاکستانی ہمارے اہم ترین فرائض میں اول نمبر پر ہے کہ اس بات کا ہر ممکن خیال رکھیں کہ ہماری کسی بھی حرکت سے ہمارے ملک کا نام بدنام نہ ہو۔ یہ فرض ان لوگوں پر زیادہ لاگو ہوتا ہے جو عوامی شخصیات ہوتے ہیں جن میں فنکار، اداکار، کھلاڑی، سیاستدان، کاروباری افراد، وغیرہ وغیرہ۔ بدلتے ہوئے دنیا کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا رویہ کم ازکم ملک سے باہر بہت محتاط ہونا چاہئے کیونکہ محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ ساری دنیا ہم پاکستانیوں کو بدنام کرنے کے درپے ہے (لفظ محسوس استعمال کیا ہے جبکہ حقیقت یہی ہے)۔ دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے کوئی خطرے کی یا پریشانی کی بات نہیں بنتی ہاں اگر پاکستان میں کچھ ہوجائے تو بات کا کیسا بتنگڑ بنتا ہے اس سے ہم سب خوب واقف ہیں۔ آجکل کرکٹ ہی کرکٹ ہورہی ہے اور پاکستان کی ٹیم پاکستانیوں کو مایوس پر مایوس کرتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ہمیں لگا کے پاکستانی قوم کرکٹ کو سمجھ چکی ہے اب پاکستان کی ہار پر جذباتی نہیں ہوگی۔ لیکن افسوس اسوقت ہوتا ہے جب کرکٹ ٹیم کی کارگردگی ایسی ہو جیسے کسی گلی یا محلے کی ٹیم پاکستان نے عالمی مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیج دی گئی ہو، کپتان کے فیصلوں کی سمجھ نہیں آرہی، میدان میں ٹیم کی باہمی ہم آہنگی دیکھائی نہیں دے رہی، کرکٹ کے شوقین اور کرکٹ کو سمجھنے والے یہ ساری باتیں بہت اچھی طرح سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آج کل تو سماجی میڈیا نے ایسے امور کو منظرعام پر لانے کا ذمہ احسن طریقے سے اٹھایا ہوا ہے۔
ایک طرف تو پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو شکست سے دے کر پاکستانی قوم کے حوصلے دوگنا زیادہ بلند کردئے لیکن اگلے ہی میچ میں جو کہ آسٹریلیا سے کھیلا گیا پاکستانی ٹیم انتہائی سہل پسندی کی وجہ سے جیتا ہوا میچ ہارگئی، پاکستانی قوم کو قوی امکان تھا کہ ٹیم تاریخ کرنے کیلئے تیار ہے نئی ٹیم ہے نیا جذبہ ہے عالمی مقابلوں میں بھارت سے کبھی نا جیتنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ کسی حد تک قدرت نے ساتھ دیا اور کپتان نے ٹاس جیت لی، شائد نیند میں ہونے کے باعث، جس کا ثبوت ساری دنیا نے دیکھا، جوکرنا تھا اسکا الٹ ہوگیااور بھارت کو پہلے بلے بازی کی دعوت کیا دی سمجھئے اپنے گیند بازوں کی درگت بنوانے کا پروانا دے دیا۔ بڑے بڑے کہتے رہے کہ ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنی چاہئے اور بھارتی کپتان نے بھی یہی بات کی کہ ہم ٹاس جیت جاتے تو بلے بازی ہی کرتے۔ پاکستان اور بھارت کے میچ کیلئے پوری پاکستانی قوم نے میچ دیکھنے کیلئے مختلف طریقوں سے خصوصی انتظامات کئے جیسے کسی تہوار کومنانا ہو، خصوصی دعاؤ ں کا اہتمام کیا گیا اور ہماری پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی ایک رات قبل سیر سپاٹے اور باہر کھانے کھاتے دیکھائی دیں۔ اگر پاکستان میچ کو میچ کی طرح کھیل کر ہار جاتا تو قوم کواتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا کہ اس بری طرح سے ہارنے کا ہوا ہے اس پر سونے پہ سوہاگا وہ تمام حرکات جو کم از کم ایک پیشہ ور ٹیم کے کھلاڑیوں کو زیب نہیں دیتیں منظر عام پر آگئیں۔ اس عالمی کپ میں شعیب ملک سے پاکستانی عوام کو بڑی توقعات تھیں اور یقینا کپتان اور انتظامیہ کو بھی رہی ہونگی لیکن ابھی تک شعیب ملک کسی طرح کا کردار نبھانے میں بلکل ناکام دیکھائی دئے ہیں اور مذکورہ ویڈیو کا کلیدی کردار بھی وہ اور انکی بھارتی بیگم ہیں۔ ان سارے غیر معمولی محرکات کے پیچھے کچھ نا کچھ تو پوشیدہ ہے، اب تو کرکٹ سفارتکاری بھی نہیں کہہ سکتے۔ بہت سارے ایسے لوگ ٹیم کیساتھ ہیں جو ان رازوں پر سے وقت آنے پر پردہ اٹھائینگے۔ بس ملک کی عزت اور وقار کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ابھی عالمی مقابلوں میں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے اور ابھی پاکستان کے آگے بڑھنے کہ امکانات بھی باقی ہیں یعنی ابھی وقت ہے کہ اپنے تمام اقابل اعتراض اقدامات پر جیت کر پردہ ڈال لیا جائے کیونکہ ہم بہت جلدی سب کچھ بھول جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے خصوصی درخواست ہے کہ اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے اور اپنے جسموں پر ہری وردی کی لاج رکھنے کیلئے اپنی بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اگر آپ سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ ممکن ہے کہ تاریخ رقم کرنے کا موقع پھر مل جائے۔