سب سے پہلے بطور ایک کرکٹ فین ہونے کے ناطے ہم نجم سیٹھی صاحب کو پاکستان سپرلیگ کیلئے کی جانے والی کاوشوں اور خدمات پر انکا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ایک ایسے وقت میں یہ دیا روشن کیا جب پاکستان کرکٹ اندھیوں اور طوفانوں کی زد میں تھی جسکی وجہ سے ہمارے کرکٹ کے میدانوں میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبا ت کا انتظام کیا جارہاتھا۔ ہمارا پڑوسی ملک ہمیں تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا نا ہونا بھی ہمارے پڑوسی کی سازشوں کا نتیجہ ہی ہے۔ یہ خدا کی نعمت ہے کہ پاکستانی قوم جذبہ حب الوطنی سے مالا مال ہے، اس جذبے نے ہی پاکستان میں کرکٹ کو مرنے نہیں دیا۔ آج جب پاکستان سپر لیگ کا چوتھا ایڈیشن شروع ہوچکا ہے اور یہ دنیا کی دیگر لیگز کی طرح مقبولیت کے ریکارڈ بنا رہی ہے اور اپنے عروج کی بلندیوں کو چھو رہی ہے تو یقیناًہمارے دشمنوں کے دلوں پر خنجر چلنے کے مترادف محسوس ہورہی ہوگی۔ سوائے پہلے ایڈیشن کے دوسرے ایڈیشن سے پاکستان سپرلیگ نے اپنے گھر کی راہ لینا شروع کی، سست مگر مستحکم حکمت عملیِ کی بدولت اللہ کے حکم سے پانچواں نہیں مگر چھٹا ایڈیشن مکمل پاکستان کے میدانوں میں اپنا رنگ جماتا دیکھائی دے گااور ۲۰۲۱ تک کراچی سے خیبر تک یہ رنگین میلہ اپنے رنگ بکھیرتا دیکھائی دیگا۔ سچ پوچھئے تو پاکستان سپر لیگ کا اصل مزہ ۲۰۲۱ میں ہی آنے والا ہے۔ یہ وہ سال ہوگا جب پاکستان نا صرف اپنی معاشی استحکام کی جدوجہد کیساتھ ساتھ دیگر مسائل سے بھی چھٹکارا پالے گا جن میں سب سے اول نمبر پر بدعنوانی ہے۔ پاکستان سپرلیگ، پاکستان میں امن اور استحکام کی گواہی دینے میں بھی اہم ترین کردار ادا کرنے والی ہے۔ بین الاقوامی کھلاڑیوں سے ان کے جذبات پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے ریکارڈ کئے جائیں اور دنیا کو باربار میڈیا کے ہر فورم سے دیکھائے جائیں۔
پاکستان سپر لیگ سے پاکستان کرکٹ اور کرکٹ کھیلنے والوں کو تو کاروباری فائدہ ہو ہی رہا ہے وہیں یہ بات بھی قابل غور ہونی چاہئے کہ کیا ہم ابتک کے تین (۳) ایڈیشن میں سے کتنے ہونہار اور منجھے ہوئے کھلاڑی نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستانی قوم بے پناہ محارتوں سے مالا مال ہے بچہ بچہ سیاست اور کرکٹ کے طول و عرض سے واقف سنائی دیتا ہے۔ معلوم نہیں یہ ملک کے حالات کا کارنامہ ہے یا پھر ہر گھر میں سیاسی کھلاڑی موجود ہیں۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ جناب عمران خان صاحب کی کرکٹ کے میدانوں میں کئے جانے والے تاریخی فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس قوم کے کچھ لوگ اب کرکٹ کے کھلاڑیوں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بھئی اب ذرا زیادہ محنت کرلو تم بھی ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہو، گویا طنز میں بجھا ہوا ایک تیر چلاتے ہیں۔ کرکٹ اور حقیقی سیاست جس میں مفادات اور بدعنوانی کا عنصر شامل نا ہو واقعی بہت ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
کچھ سوال ہیں جو نا صرف پاکستانی کرکٹ بلکہ دنیا کی کرکٹ پر اثر انداز ہوتے جارہے ہیں۔ کیا پاکستان سپر لیگ یا پھر دنیا جہان میں کھیلی جانے والی اس طرح کی لیگز فطری صلاحیتوں سے مالامال کھلاڑیوں کو سامنے لانے کیلئے کافی ہیں؟ کیا واقعی اب اصل کرکٹ کم وقت دورانئے کے کھیل تک محدود ہونے جا رہی ہے؟دراصل ساری کی ساری دنیا اب تجارتی بنیاد پر کھڑی ہے پیسے والے لوگ شہرت کیساتھ ساتھ اپنے پیسہ کو مزید بڑھانے کیلئے اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ انڈین پریمئر لیگ سے شروع ہونے والا یہ طوفانی کرکٹ کا طوفان اب تو ساری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ لے چکا ہے کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد اس کھیل یا پھر ٹی ٹین اور ٹی ٹوئنٹی لیگز کو بطور تجارت ہی لیا جائے ویسے حقیقت طور پر ہو تو یہی رہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے اس طرح کے کاموں میں حصہ ڈالا جاتا ہے، جیساکہ فٹبال کے بارے میں تو یہ بات عام طور پر کہی جاتی رہی ہے۔
انڈیا میں تو پچھلے دس سالوں میں کرکٹرز کی اتنی وافر مقدار تیار ہوچکی ہے جس کو انکی چناؤ کی کمیٹی کیلئے ایک بڑا مسلۂ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اسکے علاوہ اگر دیکھا جائے تو باقی کرکٹ کھیلنے والے ممالک نے چند ایک کے سوا کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ پاکستان کو ہی لے لیجئے کہ ہم نے اب تک کتنے گوہر نایاب تلاش کئے ہیں یقیناًگنتی کہ اور انکو بھی بھرپور جگہ ملنا مشکل دیکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈایک ادارہ ہے اور اس ادارے سے وابسطہ لوگ بھی قابل ہیں لیکن جیسا کہ ملک کو بدعنوانی کے سرطان نے جکڑ رکھا ہے تو تھوڑا تھوڑا ہر ادارہ اور شائد ہر فرد اس بیماری کی زد میں ہے۔ مالی بحران پر قابو پالیا جائے اور ملک میں روپے پیسے کی فراوانی ہوجائے ہر فرد کو اسکی محنت اور کام کے صحیح معاوضہ مل جائے اور ہر فرد کو کچھ نا کچھ کام کرنے کو مل جائے تو ملک سے بدعنوانی بہت حد تک کم کی جاسکتی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کو پاکستانی کس طرح لیتے ہیں، بلکل دوسری ٹی ٹوئنٹی لیگزکی طرح دیکھتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی لیگز ہورہی ہوں پاکستانیوں کی نظریں شاہد آفریدی کو ہی تلاش کرتی رہتی ہیں لیکن اب وقت کروٹ لے رہا ہے آفریدی نے اسوقت اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے جب ایسی لیگز شروع نہیں ہوئی تھیں لیکن ان لیگز کی خوش قسمتی سمجھئے کہ انھیں شاہد آفریدی اور شعیب ملک جیسے باکمال کھلاڑی ملے، یہ وہ نام ہیں جو دنیا میں ہر اس جگہ جانے جاتے ہیں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ جوکہ ایک باقاعدہ ادارہ ہے اس ادارے میں بھی دوسرے اداروں کی طرح کام کرنے والے پیشہ ور لوگ ہیں۔ حکومتیں بدلتیں تو ہمارے ملک میں ادارے کہ سربراہوں کی کرسیاں بھی ہلنا شروع ہوجاتی ہیں خصوصی طور پروہ کرسیاں جن پر سیاسی نوازے ہوئے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ خیر نجم سیٹھی صاحب سیاسی تھے یا غیر سیاسی اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن نئی حکومت کے آتے ہی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے آزاد کرلیا اور موجودہ حکومت نے یہ اہم ترین ذمہ داری ماضی میں بین الاقوامی کرکٹ کے ادارے میں طویل عرصے تک پاکستان کرکٹ بورڈ کی نمائندگی کرنے والے جناب احسان مانی کو چیئرمین کی ذمہ داری سونپ دی گئی جوکہ ایک انتہائی مثبت قدم تھا جس کی وجہ ایک بین الاقوامی وسعتِ نظر ہونے کیساتھ ساتھ بہترین انتظامی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں گوکہ انہوں نے ادارے کو مینیجنگ ڈائیریکٹر کاعہدہ دیا ہے۔ حکومت کی طرح اداروں کو بھی دو طرز پر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی یعنی اپنی دوبہترین ٹیمیں بنانی ہونگی ایک وہ ٹیم جس کا کام ادارے کو فوری طور پر کار آمد بناتے ہوئے فائدے مند بنانا ہو اور دوسری اور اہم ٹیم کا کام ان تمام عوامل کی نشاندہی (جن کی باعث ادارے تباہ ہوئے یا ہونے والے ہیں )کرنا اور ان دائمی طور پر نمٹنے کے جائز (قانونی) طریقے اختیار کرتے ہوئے ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا۔ پاکستان کرکٹ بور ڈ کافی حد تک پیشہ ورانہ امور پر گامزن ہوچکا ہے۔ ٹیم کی بہتری بھی باقاعدہ نظر آرہی ہے کھلاڑی کافی حد تک توانائی اور کھیل کے جذبے سے سرشار نظر آرہے ہیں، لیکن یہ کیا کہ سرفراز پر چار میچوں کی پابندی کیا لگی لوگوں نے نئے کپتان پر بحث کرنی شروع کردی، جبکہ ایسی صورتحال میں ہم نے اپنے تجزئیے یہ بات واضح کردی تھی کہ اب جو چئیر مین ہیں وہ کوئی جذباتی یا میڈیا شخصیت نہیں ہیں جو اس سماجی میڈیا کہ بہاو کی نظر ہوجائینگے وہ ایک انتہائی منجھے ہوئے منتظم ہیں اور وہ سرفراز کی کپتانی کا باقاعدہ اعلان کر دینگے اور دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ وقت بدل گیا ہے اگر یہ کہہ دوں کہ تو شک نہیں کہ تبدیلی نے اپنے جلوے دیکھانے شروع کردئیے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اب پاکستان سپر لیگ کی بدولت جہاں اپنے لئے سرمایہ بھی جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا، پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا بھی سبب بننے لگا ہے، نئے کھلاڑیوں کی تلاش کا کام بھی آسان ہوگیا ہے ان سب سے بڑھ کر ان لیگز کا جو فائدہ کھلاڑیوں کو پہنچ رہا ہے وہ ہے کھیل کے حوالے سے اعتماد جو کسی بھی کھلاڑی کی کامیابی میں انتہائی قلیدی کردار ادا کرتا ہے اور خصوصی طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں کھلاڑی انتہائی پسماندہ علاقوں سے نکل کر کرکٹ کے بین االاقوامی میدانوں میں پہنچتے ہیں انہیں اعتماد کی حوصلے کی بہت ضرورت ہوتی ہے، ہمارے سامنے حسن علی اور شاداب خان کی مثالیں موجود ہیں، دونوں کا حوصلہ اور اعتماد قابل دید ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس طرح کی لیگز شہروں کی سطح پر کرانے کا اعلان کرے اور شہر کی آبادی کے لحاظ سے ٹیمیں بنائیں ان ٹیموں میں ملک کے معروف اور غیرمعروف کھلاڑیوں کو نمائندگی کرنے کا پابند بنائے تاکہ وہ ثمرات جو اوپر والو ں کو مل رہے ہیں اس کا کچھ حصہ وہ اپنے کل کیلئے بھی استعامل کریں۔ سٹی لیگ کے نام سے کرائی جانے والی لیگ اس شہر میں رہنے والے بڑے لوگ یا ملٹی نیشنل کمپنیاں خریدیں یا چلائیں۔ اس طرح کے عمل سے کرکٹ وہ گوہر بن جائے گا جو نا صرف معاشرے بلکہ معاشرت اور سماجیت کو بھی استحکام کی جانب گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کریگا۔ پھر دیکھئے ملک سے کس طرح سے نشہ جیسی لعنت کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوتے ہیں اور نوجوان نسل کیلئے بھرپور بدعنوانی اور بے ایمانی سے پاک راستہ تیار کرتے ہیں۔ آخیر میں ایک اندازے سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ پی ایس ایل ۴ ملتان سلطان کے جیت لے گی۔
ہمیں علم نہیں کہ پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب میں مہمانوں کی فہرست مرتب دینے والا کون تھا لیکن یقین سے لکھ رہا ہوں کہ اسمیں احسان مانی صاحب کا کردار اہم نہیں ہوگا، کیونکہ نجم سیٹھی صاحب کا اس فہرست میں نام نا ہونا بہت سے ان ابہاموں کو جنم دیتا ہے جن کی حکومت وقت سے توقع نہیں ہے۔