یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ انسان، قدرت کی رہتی دنیا تک کیلئے بہترین تخلیق ہے، ناصرف بہترین بلکہ ساری تخلیقات میں سب سے افضل، فرشتوں سے سجدہ کروا کر اس فیصلے پر مہر ثبت کروا دی گئی۔ انسان کو اسکی خواہشات کیساتھ دنیا میں بھیجا اور خواہشات کی تکمیل کے ذرائع بھی پیدا کئے اور انسان کو خود اتنا طاقتور پیدا کیا کہ وہ دنیا میں کو اپنی مرضی سے چلانے کہ اہل ہوگیا۔ جہاں شکر کرنا تھا وہاں فخر کرنا شروع کردیا اور پھر انسانوں کی ایک جماعت تو ایسی بھی نکلی کہ جس نے اپنے تخلیق کار کو ہی ماننے سے انکارکردیا، باقیوں نے اپنی اپنی مرضی کے نام رکھ لئے، لیکن اللہ رب العزت نے انسان سے صرف اپنی اطاعت کی خواہش ظاہر کی اور یہ بھی بتادیا کہ میری اطاعت کرنے والوں کو میں کیسے نوازتا ہوں۔ اللہ رب العزت کا یہ کہنا ہے کہ مجھے تو سب ہی مانتے ہیں لیکن جو میری مانتا ہے میں اسے اس زندگی میں بھی غالب کردیتا ہوں اور دائمی زندگی میں بھی سرخرو کردیتا ہوں۔
انسان کو جیسے جیسے قدرت کی عطاء کردہ صلاحیتوں کا علم ہونا شروع ہوا اس نے صلاحیتیں دینے والے کو، ان پر عمل پیرا کرنے کی ہمت دینے والے کو بھلاتے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا اور دنیا میں اپنی اپنی نجی خدائی کے دعوے کرتے چلے گئے۔ ان خدائوں کو کس طرح سے قدرت نے سبق سیکھائے، اپنی آخری کتاب میں وہ سارا کچھ بیان کردیا جس جس طرح سے زمینی خدائوں کو انکی حیثیت اور اوقات یاد دلائی اور رہتی دنیا تک کیلئے نشان عبرت بنا دیا۔ ابرہاء کے ساتھ پیش آنے والا واقع اسلام کے ظہور سے قبل کا ہے جب ابرہا نامی بادشاہ نے اپنی دنیاوی طاقت کے بل بوتے پر زمین پر بنائے گئے اللہ کے گھر(خانہ کعبہ) کو مسمار کرنے کیلئے نکلا اور متولی کعبہ حضرت عبد المطلب نے یہ کہہ کر کعبہ خالی کردیا کہ یہ جس کا گھر ہے وہ خود ہی اسکی حفاظت کرے گا (ایکطرف تو واحدانیت پر ایمان اور بھروسے کی اعلی ترین مثال قائم کی گئی تو دوسری طرف یہ سوال بھی کھڑا کردیا کہ صدیوں سے تعمیر شدہ عربوں کی عبادت گاہ (اللہ کاگھر) جس کی عظمت و حرمت عربوں کیلئے ہمیشہ سے اہم ترین تھی، اس طرح سے چھوڑ دینا کہاں کی دانشمندی تھی اورکیا یہ عربوں کی بہادری اور غیرت کا سوال نہیں تھا)۔ اب ابرہاء کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دیکھنے والوں نے تو دیکھا ہوگا لیکن اللہ رب العزت نے رہتی دینا تک کیلئے اپنے محبوب ﷺ کے توسط سے قرآن میں بتا دیا کہ ہم نے انکے ساتھ کیسا سلوک کیا اور انکو شکست دینے کیلئے کوئی بہت بڑی فوج نہیں بھیجی بلکہ ایک چھوٹے سے پرندوں ابابیلوں کی چونچ میں کتنا بڑا پتھر بلکہ کنکر آسکتا ہے جو انہیں دیکر اللہ رب العزت نے بھیجا اور ان ابابیلوں نے ان کنکریوں سے زمین کے سب سے بڑے جانور ہاتھیوں کو ایسا کردیا کہ جیسے کھایا ہوا بھس۔ یہ اللہ تعالی کی قدرت کا رہتی دنیا تک کیلئے بہترین مظہر ہے۔ ایسے لاتعداد معجزے دنیا نے دیکھے ہیں اور ابھی تک دیکھتی آرہی ہے لیکن اپنے اشرف المخلوقات ٹہرائے جانے کا خمار دماغ سے نکالنے کیلئے تیار نہیں، صرف ایک قدم پیچھے ہٹ جاناہے یہ سمجھنے کیلئے آخر ہمیں اس منصب پر ہمیں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرنے والا کون ہے؟ کون ہے جو اپنی تخلیقات کا خوب علم رکھتا ہے اور پھر ایک دن ہمیں بھی ہماری مرضی کیخلاف، ہماری بے تحاشہ دولت و طاقت کے باوجود اپنے پاس بلا لیتا ہے، کچی مٹی سے بنے انسان کو مٹی میں ملادیتا ہے۔
انسان آخری دم تک وہی کرتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسکی لغت میں دائمی اختتام یا انجام کا لفظ صرف دوسرے کیلئے ہوتا ہے، خود کو وہ اس سے ماوراء سمجھتا ہے۔ انسان اس امرکو بھی نظر انداز کردیتا ہے کہ موت ہر ذی روح کو آنی ہے، اپنے ذمہ دنیا میں لگے کاموں کو اس انہماک سے کرتا ہے کہ جیسے اسکے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتے، ساری زندگی یہ بھولا رہتا ہے کہ اس سے پہلے بھی یہ کام (جو وہ کر رہا ہے) کوئی اور کررہا تھا۔ کسی نے اس سوچ کو خوبصورت لفظوں کا پیرہن دیا کہ جیتا ایسے کہ جیسے مرنا ہی نہیں ہے اور مر ایسے جاتا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ ایک اور بات یہاں پیش خدمت کرتا چلوں کہ انسان تو ہمیشہ مشکلات میں گھرا رہتا ہے یہ تو بس کچھ دھیان ادھر ادھر لگا کر اپنے آپ کو کچھ وقت کے لئے مشکلات سے دور کرلیتا ہے، یقینا قارئین اس بات کو اپنے اپنے مزاج سے اخذ کرینگے لیکن کہیں نا کہیں سے انہیں اتفاق کی صورت نکلتی دیکھائی دے گی۔
اللہ تو اپنے بندے سے ستر (70) ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، بھلا وہ کیسے اپنے بندے کو تکلیف میں دیکھ سکتا ہے اور کیسے تکلیف میں دھکیل سکتا ہے؟ یعنی بندے کو درپیش مشکلات و پریشانی اللہ کی مرضی تو نہیں ہوسکتی، تو پھر کیا ہے؟ اشر ف المخلوقات سمجھنے والا ہر انسان اپنے آپ میں خدا بنا ہوا ہے جس کی جتنی پہنچ ہے وہ اس پہنچ میں خدا ہے، پھر ہمیں یہ بھی خوب علم ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ انسان نے جب جب قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کی ہے اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے بلکہ خمیازہ تو انسانیت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ زمین پر آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے رہنے کی خواہش اور چاہ نے انسان کو اس بات سے عاری کردیا ہے کہ اسکے کس عمل سے کیا نقصانات اور کس قسم کے نقصانا ت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر ہے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، ابھی وہ کرو جو کرنا ہے۔ گزشتہ تین ماہ سے ہمارے پڑوسی ملک چین کے ایک صوبے ووہان میں ایک وباء نے کروونا نامی وائرس کی صورت میں بھرپور حملہ کیا اور چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا یہ وہ چین ہے جو اس وباء سے قبل دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنے کا دعوی کرنے والا تھا، چین دنیا کے معاشی حب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ چین نے بہت تدبر اور بہترین حکمت عملی، افرادی قوت کے بہترین استعمال کی بدولت اس نا دیکھائی دینے والی وباء سے تقریباً جنگ جیت لی ہے۔ کیونکہ چین معاشی حب ہونے کی وجہ سے ساری دنیا سے درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور غالب امکان ہے کہ اسی کی بدولت یہ کرونا نامی وباء ساری دنیا میں پہنچ گئی اور چشم زدن میں ساری دنیا میں سوگ کی فضاء پھیل گئی۔ آج کے کتنے ہی ممالک مکمل طور پر کرفیو زدہ ہیں یعنی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ان میں ترقی یافتہ ممالک کابھی شمار ہے ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو دنیا میں سب سے بہترین طبی سہولیات کیلئے مثالی قرار پائے ہیں۔ کرونا نے گویا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ابھی تک اسکی دوا کا کوئی امکان نہیں دیکھائی دے رہا سائنسدانوں اور طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لگ بھگ دس سے اٹھارہ ماہ درکار ہونگے۔ کرونا نے پاکستان کو بھی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے اور یہ آزمائش اسلئے بھی بہت سخت ہے کہ ہمارے ملک میں طبی سہولیات کا فقدان تو ہے ہی، دوسری طرف ذخیرہ اندوز بھی ہیں اور تیسری وہ خلق ہے جو موقع کی مناسبت سے منافع خوری کرنا شروع کردیتی ہے۔ پاکستان کو کبھی بھی حالات سے خطرہ نہیں رہا ہے، خطرہ ہمیشہ داخلی کالی بھیڑوں سے رہا ہے جو اپنے فائدے کیلئے ناموقع دیکھتے ہیں اور ناہی وقت کا خیال کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم دنیا جہان کو درپیش صورت حال سے باخبر ہوتے ہوئے بھی کسی خاص قسم کا رد عمل دیکھانے میں تاحال ناکام رہی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا معاشی نظام ہے جس کی تقسیم نے عوام کو اپنے خاندان کیلئے دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے اپنی جان بھی جوکھم میں ڈالنی پڑتی ہے تو ڈال دیتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھروں کو واپس ہی نہیں آتے اور اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔ اب بھلا اس مزاج میں پلنے والی قوم کو بھلا کیا کوئی خوف دلاسکتا ہے، ویسے بھی کسی نے کیا خوب کہا کہ ہم تو اس آس پہ جیتے ہیں کہ کب مرنا ہے۔
اگر یہ سب اللہ کی مرضی ہے تو پھر کوئی کچھ نہیں کرسکتا سوائے اسکے کہ وہ تمام کام کثرت سے کئے جائیں جو اللہ رب العزت نے اپنی رضامندی کیلئے بتائے ہیں، ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ یہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ہمارے توکل کا معاملہ بھی کھوٹ زدہ ہے کیونکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ کثرت سے استغفار کریں، صدقہ و خیرات کریں، بے ایمانی اور بد عنوانی سے توبہ کا سب سے اچھا وقت ہے، حقدار کو اسکا حق دے دیں، جھوٹ، مکر و فریب سے توبہ کرلیں اور جس اللہ کو ماننے کے دعوے دار ہیں اسکے احکامات کو ماننا شروع کردیں، جس رسول ﷺ کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں انکی سچی اتباع کی ٹھان لیں، آپ ﷺ سے حقیقی محبت کو اپنی زندگیوں میں ڈھال لیں، نجات کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے ورنہ کروناجو آنکھ سے دیکھائی بھی نہیں دیتا کس طرح سے دنیا کو خوف میں مبتلاء کررکھا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کہیں ایسا نا ہوکہ یہ وہ وقت ہو کہ جب توبہ کے دروازے بند کردئیے جائیں اور ہم اشرف المخلوقات ہونے کے زعم میں توبہ کے سجدے سے محروم کردئیے جائیں۔