*ہوا ہے شہہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا* یہ شعر کس شاعر کا ہے اس سے کم ہی لوگ واقف ہونگے اور اس شعر کی حقیقت سے شائداس سے بھی کم لوگ فہم رکھتے ہوں۔ یہ مصرعہ اسد اللہ خاں غالب کی برجستگی کی ایک اعلی ترین مثالوں میں سے ایک ہے، جو کہ دلی میں سر بازار استادابراہیم ذوق پر بطور طنز داغا گیا۔ حضرت ابراہیم ذوق ڈوبتی مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کے استادوں میں سے تھے۔ ابراہیم ذوق کو غالب کا یہ اندازِبیاں گراں گزرا اور دربار میں حاضری لگوا دی، دیگر بادشاہ کے دربارسے تعلق رکھنے والے شعرائے کرام کے درمیان بلا بٹھایا اور اپنی دانست میں غالب کی ناقدری کا جال بن دیا گیا، اب جو معاملہ بادشاہ سلامت سے عرض کیا گیا تو وضاحت طلب کی گئی جس پر غالب نے شعر اس خوبصورتی سے مکمل کیا کہ وہاں موجود تمام اصحاب (جو معاملے کی پیچیدگی سے خوب واقف تھے) بس دیکھتے ہی رہ گئے اور وہ قابل تحسین دوسرا مصرعہ تھا *وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے *جس میں غالب نے سارا کا سارا ملبہ اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور اس سے بڑھ کر بغیر لکھی پوری غزل ہی برجستہ سرمحفل پیش کردی۔ پھر کیا تھا کہ غالب کو دربار میں باقاعدہ جگہ مل گئی۔ ہمارے تجزئے کیمطابق حضرت غالب اہل نظر کی نظر ہوگئے لیکن اس کا سبب بدنظر بنی۔
صاحب اقتدار کیلئے بہت ضروری ہے کہ اسکی تجزیاتی قابلیت قابل ذکر ہو جسے بصیرت بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسی قابلیت ہے جو مشیروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے مشورے دینے پر مجبور رکھتا ہے۔ تاریخ صاحب اقتداروں کو چیخ چیخ کر بتاتی رہی ہے کہ اپنے مشیروں سے بچ کر رہنا یہ آپکو ذاتی حیثیت میں بیکار کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ملک کیلئے کچھ خاص کرنے کا جذبہ لئے آپ اقتدار تک کس محنت اور جدوجہد سے پہنچتے ہو، بہت کچھ تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔ لیکن یہ مشیر آپکی ذہنی صلاحیت صلب کرنے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ حالیہ ادوار پر بھی اہل نظر، نظر دوڑائیں تو دیکھائی دے گا کہ پرویز مشرف صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کا بھی ایک خاص نظریہ تھا اور وہ بھی ایک مشن کی طرح اس پر کام کرنا چاہتے تھے لیکن پھر وہی ہوا لوگ جمع ہونے شروع ہوئے اور کیسے کیسے لوگ جمع ہوگئے یہ سب جانتے ہیں اور پھر مشرف صاحب کیساتھ کیا ہوا یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا، میاں محمد نواز شریف صاحب تین دفعہ وزارت عظمی پر براجمان ہوئے لیکن ایک بار بھی اپنا دور مکمل نہیں کرسکے اور آج طرح طرح کی قانونی پیچیدگیوں کی نظر ہوچکے ہیں، ایسا ہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کیساتھ بھی دیکھا جا رہا ہے، تین دفعہ کا اقتداربھی انہیں مشکلات سے نہیں نکال سکا ہے۔ یہی اہل نظر کی سازشیں محلاتی سازشیں بھی کھلاتی ہیں جہاں بیٹے نے باپ کو تخت سے اتار کر تختے پر بٹھا دیا۔ تاریخ واشگاف چیخ رہی ہے۔ یہ وہ ادوار تھے جب میڈیا کی آزادی اور بہتات نہیں تھی۔ کیا ہوا اور کیسے ہوا فوری طور پر پتہ چلنا ناممکن کام تھا اور بعد میں وہ پتہ چلتا تھا جو اقتدار میں بیٹھے ہوتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظر برباد کرنے والا بھی رکھتا ہے اوریہ بھی نظر کے کمال ہیں کہ کوئی بلندیوں پر پہنچا ہوا ہے۔ اہل نظرکی نظر روح تک رسائی رکھتی ہے اور ایسی نظر بنا راستے کہ ہی ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو پہچان لیتی ہے اور دل کے خیالات جان لیتی ہے۔ نظر کی اہلیت، نظر سنبھالنے سے ملتی ہے۔ موضوع مشکل ضرور ہے لیکن اسکے پیچھے پوشیدہ بہت ہی آسان فلسفہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اچھائی اگر برائی کے ہاتھ لگ جائے تو بہت نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ اچھائی کا اپنا ایک اثر و رسوخ ہوتا ہے جسے برائی خوب استعمال کرتی ہے یہاں تک کہ اچھائی ایک بہت بڑی برائی بن کر ابھر تی ہے لیکن یہ صرف اہل نظر ہی دیکھ سکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ اہل نظر اس بات کے چرچے سے خوف ذدہ ہوں اور وہ کسی کو اس بات سے شناسا کرنے سے گریز کرتے رہیں۔ اگر برائی کسی اچھائی کی نظر میں چڑھ جائے اور برائی اچھی ہوتی ہے تو بہت ہی اچھی ہوجاتی ہے جوکہ ہوتا بہت کم ہے۔
آج پاکستان میں تقریباً ہر پاکستانی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ صحیح تھا جو ہوچکا ہے یا یہ صحیح ہے جو ہو رہا ہے۔ ستر سال تک رشوت چور بازاری عام سی بات رہی ہو حق اور ناحق کا کچھ پتہ نا ہو، امیر کو انصاف ملتا ہو اور غریب نسل در نسل اپنے انصاف کیلئے خون پسینہ بہاتا چلا جاتا ہو۔ پاکستانی عوام ایسے حالات کیساتھ گزارا کرنے کی عادی ہوچکی ہے یہ پیسے دے کر یا لے کر اپنے چھوٹے بڑے کام کروانے کے عادی ہیں جس سے پیچھا چھڑوانا مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کام تو ہوجاتے تھے یہ ایمانی اور ایمانداری میں فرق کھوبیٹھے ہیں یا شائد انہوں نے یہ فرق زندگیوں سے حذف ہی کردیا ہے۔ ہر ادارے کی تباہی اور تنزلی کے یہی بنیادی اسباب ہیں۔ اب ذرا بہت دھیان سے درجہ ذیل سطور مطالعہ کیجئے؛
اگر آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہے کیسے ہیرونچی اپنے معملات چلاتا ہے تو آپ سمجھ جاینگے کہ اسوقت ہو کیا رہا ہے۔ پچھلے کئی عشروں سے ٹیکے لگا لگا قوم اور معیشت کو بے حال کردیا، آہستہ آہستہ اساسین بکتی گئی، نشہ بیچنے والے خوب کماتے رہے۔ اب ایک شخص نے اسے درست کرنے کی ٹھانی، علاج شروع میں نشئی کے لیئے ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ ہوتا ہے (یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں)، مگر ایک وقت آتا ہے کہ وہ صحتمنداور خوشحال ہو جاتا ہے۔ اب یہ پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ وہ موجودہ تکالیف کو دلیری سے برداشت کریں یا پھر سے نشہ بیچنے والوں کو اپنا حکمران چن لیں۔
ہم سب کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ یہ دعاکریں کہ موجودہ حکومت اہل بری نظر سے محفوظ رہے اور کسی ایسے سودے بازی کی بھینٹ نا چڑھ جائے جس کا سرا پچھلی حکومتوں سے بھی بندھے ہوئے ہوں۔ وگرنہ پھر پاکستانی قوم تبدیلی کے نام لینے والے کسی بھی فرد کو سر عام سنگسار کرنا شروع کردے گی، اور اپنے آپ کو منشیات فروشوں کے حوالے کردے گی۔ خدارا ایسا نا ہونے دینا اور اہل بد نظر سے خود کو بچائے رکھنا۔
آج اہل نظر (ماضی کے سیاست دان اور مذہبی رہنماؤں )کو نظر آرہا ہے کہ آنے والے وقت میں کس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ایسے ہی تو نہیں کسی معصوم بچے کی طرح واویلا بنایا ہوا ہے۔ قدرت حکومت وقت کو ایسے مشیروں سے بچائے رکھے جو اہل نظر تو ہوں لیکن بد ہوں۔