محترم قارئین کیا آپ کو نہیں لگتا کہ میڈیا ایک ایسی جدوجہد میں لگا ہوا ہے کہ جس میں جیت صرف میڈیا کی ہے لیکن ہارنے والے بہت سارے عام لوگ ہیں۔ بہت سال پہلے ایک ریڈیو ہوا کرتا تھا جسے آج بھی ریڈیو پاکستان کہا جاتا ہے مخصوص اوقات میں خبریں نشر ہوتی تھیں۔ آج تکنیک کے اس دور میں جدت نے ہر میدان میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں، آج ریڈیو پر لگ بھگ ستائس (۷۲) مختلف اسٹیشنز ہیں اسکے علاوہ مختلف شہروں کے مخصوص اسٹیشنز بھی کام کر رہے ہیں۔ جہاں یہ ریڈیو اسٹیشنز تفریح اور معلومات کا سامان مہیہ کر رہے ہیں وہیں ان پر چلنے والی ہر گھنٹے کی خبریں ذہنی کوفت کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ یہاں بھی میڈیا کے دوسرے ذرائع کی طرح کسی بھی خبر کو سب سے پہلے سامعین تک پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ روزانہ صبح دفتروں اور روزمرہ کے امور کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے اس دوڑ میں ریڈیو حسب ضرورت تفریح اور معلومات کے ساتھ ساتھ گزرے ہوئے دن کے حالات سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے۔ آج کل خبروں میں زیادہ ترجو خبریں نشر ہورہی ہیں وہ بہت ہی دل خراش ہوتی ہیں، قصور کی زینب کے بعد سے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کیساتھ زیادتی کی خبریں تو معمول بن چکی ہیں جن میں مدرسوں کے مدرس و معلم اسکولوں کے اساتذہ بھی ملوث ہورہے ہیں، دوسری خبریں عزت کے نام پر خاندانوں کے خاندان قتل کئے جا رہے ہیں اور تیسری اہم ترین خبر جائداد یا کسی اور نجی مسلئے پر اپنے ہی گھر کے افراد کا قتل کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف دنیا میں تباہی مچی ہوئی ہے اور یہاں ہم اپنے ہی گھرکو برباد کرنے کی ٹھانے ہوئے ہیں، دنیا میں کہیں بمباری سے معصوم بچے مر رہے ہیں، کہیں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور کہیں بھوک ان معصوموں کی زندگیاں نگل رہی ہے۔ قصور کی زینب کے سانحہ کے بعد سے ملک میں بچوں پر جیسے ظلم اور بربریت کا پہاڑ ٹوٹ پڑاہے، اہم بات یہ ہے کہ مجرمان اس بات سے بے خوف ہوچکے ہیں کہ انکا کیا گیا بدترین کام منظر عام پر آئے گا جسکی وجہ سے انکے اپنے گھروں میں رہنے والے بچوں تک بھی پہنچے گا، بے حسی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور معاشرہ اپنی ہوس کی آگ میں خود ہی جلنا شروع ہوگیا ہے۔
ہمارے ملک میں ہر کام کو کاروبار بنا لیا گیا ہے جیسے آج کل لگتا ہے ہر کوئی گھراور گاڑیوں کی خریدو فروخت کے کاروبار سے منسلک ہے، تعلیم کے شعبے میں ایسا انقلاب آیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت تو سرکاری اسکولوں کی موجودگی سے واقف نہیں جسکی وجہ بڑے بڑے اور خطیر فیسیں وصول کرنے والے اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا فخر سمجھتے ہیں، وقت ثابت کرتا ہے کہ انکا یہ فیصلہ کیسا رہااور دوسری طرف گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے اسکولوں کی بھرمار، اس کاروبار میں چار چاند ایسے لگے ہیں کہ بڑے بڑے نامی گرامی کوچنگ سینٹر کھل گئے ہیں یعنی تعلیمی اداروں سے زیادہ اہمیت کوچنگ سینٹر کو دی جارہی ہے، سرا سر پیسہ کمانے کی فیکٹریاں ہیں اساتذہ اپنا کام بھی گھنٹوں کے حساب سے کرتے ہیں اسکے علاوہ کیا کچھ ہورہا ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ طب کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو مسیحا بھی کہا جاتا ہے۔ بہت اچھے اچھے اپنے پیشے کے ماہر طبیب خدا خوفی کیساتھ حقیقی معنوں میں اپنے پیشے کو بطور مسیحائی ادا کررہے ہیں لیکن ایسے طبیبوں کی تعداد قلیل ہے اکثریت ان کی ہے جو مسیحائی کے روپ میں قصائی کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ میڈیکل اسٹورز کی بہتات ہوچکی ہے جسے جو چاہئے جاکر لے لے وہاں صرف فروخت کرنے کی غرض سے لوگ بیٹھے ہیں انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ دوا بغیر طبیب کی پرچی کے دے رہے ہیں یا پھر زبانی ہی انہیں دوا بیچنی ہے اور رقم جمع کرنی ہے۔ لوگوں نے پیسے کیلئے کام کرنا شروع کردیا ہے اب لوگ اپنے پیشے سے نہیں بلکہ اسکی وجہ سے ملنے والی رقم سے محبت کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ رقم کیسے کمانی ہے یہ لوگوں کی سوچ ہوچکی ہے۔ ادارے کھوکھلے اوراداروں سے وابسطہ لوگ دوغلے ہوتے جارہے ہیں۔
بہت ساری معصوم جانوں کی طرح پاکستان کے بین الاقوامی شہر میں ایک نو ماہ کی نشوا اپنی ہنستی کھیلتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی(اللہ نشوا کے والدین کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین)، نشوا کے والدین اسے کراچی کے ایک اچھے ہسپتال (دار الصحت)میں لے کر آئے لیکن انہیں شائد علم نہیں تھا کہ وہ طبیبوں کے ایک ایسے بازار میں لے آئے ہیں جہاں زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ عملے کی نااہلی اور پیشے سے نا انصافی کرنے والے عملی کی وجہ سے ہنستی کھیلتی نشوا سب کو روتا چھوڑ کا چلی گئی۔ یہ ہسپتال اور اسکی انتظامیہ کی بد قسمتی تھی کہ نشوا کے والدین انگوٹھا چھاپ نہیں تھے انہوں نے شور مچایا اور بغیر کسی خوف کہ اپنی بچی کی زندگی کی جنگ لڑی، ناتواں نشوا بے حسی کا نشانہ بن گئی لیکن والدین نے ایسے تمام بے حسوں کو جو مسیحا ئی جیسے پیشے سے وابسطہ ہیں بھرپور تنبیہ کردی۔ یہ ایک عام سا کیس تھا ایسی نامعلوم کتنی زندگیاں دیہاتوں کے ہسپتالوں میں چھین لی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
اس سنگین جرم کی تحقیقات شروع ہوچکی ہیں وزیر اعلی سندھ جناب مراد علی شاہ صاحب نے دارلصحت ہسپتال کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا، ہم صرف اسے ایسے دیکھ رہے ہیں کہ ایک نیا حادثہ، پھر نئی بھاگ دوڑاور پھر مکمل خاموشی۔ یہ اقدام کسی بھی طرح سے قابل ستائش نہیں، اس ہسپتال سے سیکڑوں لوگوں کے گھروں کا چولہا جلتا ہے۔ آپ نے کتنے سرکاری ہسپتال بند کردئیے جہاں یہ سب کچھ تو عام سی بات ہے۔ ایک اچھے اور منظم منتظم کی طرح انہیں انتظامیہ کو حاضر کرنا چاہئے اور ایک تحریری معافی نامہ نشوا کے والدین کے حوالے کروانا چاہئے۔ ہسپتال کچھ دنوں کیلئے بند رہے گا اور پھر سب بھول جائینگے (جیسے پہلے نا جانے کیا کچھ اپنے ساتھ ہونے واے بھولے بیٹھے ہیں)۔ صرف ہسپتالوں کا نہیں ہمارے ملک کے ہر ادارے کا یہی حال ہے گلی محلوں میں ہسپتال کھلے ہوئے ہیں اور وہاں کیا کچھ ہورہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہر گلی میں اسکول کھلے ہوئے ہیں وہاں تعلیم دینے والے اساتذہ کی جانچ پڑتال کرلیں پتہ چل جائے گا کہ ملک کے معمار کیوں اونچا مقام نہیں بنا پا رہے، جگہ جگہ سپرمارکٹیں کھل گئی ہیں، پانی کے فلٹر کی پلانٹ ایک گلی میں چار چار لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلی صاحب کیا کیا بند کرینگے؟بند کرنا کبھی بھی کسی مسلئے کا حل نہیں ہے۔ ان تمام اداروں کا کوئی ضابطہ اخلاق ترتیب دیجئے ڈاکٹروں کی فیسیں ریگولیٹ کی جائیں، اسکول کی فیسیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کا تعین کیا جائے اور مہیہ کردہ سہولیات کا جائزہ لیا جائے، اسی طرح دیگر امور میں حکومت کا کردار نظر آنا چاہئے۔ آبادی کے لحاظ سے سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیساتھ اور عملے کا بھرپور تربیت یافتہ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ حکومت نے جس دن قابلیت اور اہلیت کا ضابطہ اخلاق مرتب کرلیا اور سچ بولنے والوں کو آگے کردیا، اسی دن سے پاکستان کو سمجھیں پر لگ جائینگے۔ پھر کسی نشوا کو اپنی زندگی سے ہاتھ نہیں دھونا پڑینگے اور پھر ناہی کسی زینب کی لاش ملے گی۔